ایک حافظ صاحب اپنے محلے کی مسجد میں امامت کرتے تھے، پھر کسی حادثے میں اُن کے ہاتھ میں چوٹ آگئی جس کی وجہ سے وہ نماز پڑھانے سے معذور ہو گئے تو کمیٹی کے ممبران نے کسی دوسرے امام کو بلایا جو کہ عالم ہیں اور محلے کے لوگ بہت خوش بھی ہیں ۔ اب بات اصل یہ ہے کہ جب مولانا یہاں امامت کے لیے عارضی طور پر آئے تو لوگوں نے پرانے امام یعنی حافظ صاحب سے کہا کہ آپ نائب امام ہو جاؤ آپ کی تنخواہ جتنی تھی، اتنی ہی رہے گی، تو حافظ نے صاف انکار کر دیا جس کی وجہ سے ان کو تنخواہ بھی نہیں دی گئی، اب وہ چار مہینے بعد نائب ہونے پر راضی ہو گئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ مجھے چار مہینے کی تنخواہ دی جائے ۔تو کیا ان کو پہلے انکار کرنے کے باوجود بھی ان گزشتہ مہینوں کے تنخواہ دی جائے گی؟
صورتِ مسئولہ میں جب تک سابق امام (حافظ صاحب) نے کمیٹی والوں کے سامنے صاف انکار نہیں کیا تھا اس وقت تک وہ اپنی تنخواہ کے مستحق ہوں گے، بشرطیکہ پہلے سے ایسا کوئی واضح معاہدہ موجود نہ ہو کہ جن دنوں میں امامت نہیں کرائیں گے، ان دنوں کی تنخواہ نہیں دی جائے گی۔ لہٰذا اگر چار ماہ قبل حافظ صاحب کے ساتھ ملازمت کے معاملے کو ختم کر دیا گیا تھا تو مذکورہ حافظ صاحب گزشتہ چار ماہ کی تنخواہ کے حق دار نہیں ہیں، اور سوال میں موجود تفصیل سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ملازمت کے معاہدے کو ختم کر دیا گیا تھا؛ لہذا حافظ صاحب کا گزشتہ چار ماہ کی تنخواہ کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔
البحرالرائق شرح کنزالدقائق میں ہے:
"قال رَحِمَهُ اللَّهُ: (وَالْخَاصُّ يَسْتَحِقُّ الْأَجْرَ بِتَسْلِيمِ نَفْسِهِ في الْمُدَّةِ وَإِنْ لم يَعْمَلْ كَمَنْ اُسْتُؤْجِرَ شَهْرًا لِلْخِدْمَةِ أو لِرَعْيِ الْغَنَمِ ) يَعْنِي الْأَجِيرَ الْخَاصَّ يَسْتَحِقُّ الْأَجْرَ بِتَسْلِيمِ نَفْسِهِ في الْمُدَّةِ عَمِلَ أو لم يَعْمَلْ."
(باب الإجارة، ج:8، ص:51، ط:مكتبة رشيدية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144210201202
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن