بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

امام مسجد کا مسجد کے کمرے میں خرید و فروخت کرنا


سوال

 مسجد کے بالکل  متصل ایک کمرہ بنایا گیا تھا ،اس لیے کہ اس کو امام صاحب کی رہائش بنائیں گے ،اب وہ رہائش کے لیے نہیں بلکہ امام نے اس میں اپنی ذاتی دکان ڈال لی ہے ،کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟جب کہ جگہ بھی مسجد کی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ کمرہ مسجد انتظامیہ نے امامِ مسجد کی رہائش کے لیے مختص کیا ہے تو اس صورت میں مذکورہ امام  اس کمرے کو اپنی رہائش کے لیے استعمال کرنےکا پابند ہے ، کسی اور مقصد میں استعمال نہ کرے ۔ البتہ اگر امامِ مسجد ، مذکورہ کمرے میں مسجد انتظامیہ کی اجازت سے خرید و فروخت کی اشیاء رکھے اور مسجد کی جانب سے  لوگوں کی آمد و رفت نہ ہو یعنی خرید و فروخت کرنے والوں کو مسجد سے نہ گزرنا پڑے اور مسجد کے تقدس اور احترام  کا بھی خیال رہے  ، نیز اس کی وجہ سے امام کی مسجد سے متعلق ذمہ داریاں متاثر نہ ہوں تو اس کی اجازت ہے ۔ 

کفایت المفتی میں ہے :

’’امام  کا مسجد کے حجرہ میں خریدو فروخت کرنا :

 سوال :مسجد کا امام نمازیان اہل محلہ کی اجازت سے حجرۂ مسجد میں اپنے ذریعہ معاش کے لیے خرید و فروخت کر سکتا ہے یا نہیں ؟مثلا جلد بندی کتب فروشی وغیرہ۔"

(جواب)اگر حجرہ کا دروازہ مسجد کے اس حصے میں نہ کھلتا ہو جو نماز کے لیے مخصوص ہوتا ہے، یعنی خرید و فروخت کرنے والوں کو مسجد سے نہ گزرنا پڑے تو امام کا ایسے کام کرنا مباح  ہے۔ فقط واللہ اعلم ‘‘

(کتاب الصلوۃ ،ج:3،ص:187 ،ط:دارالاشاعت)

فتاویٰ مفتی محمود میں ہے :

’’مسجد کے حجرے کو دکان بنانا :

(ج)مسجد کے حجرے کو نمازیوں کے مشورے سے دکان کی ہیئت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ،بشرطیکہ اس دکان کی وجہ سے فتنہ و فساد برپا نہ  ہو ۔۔۔۔۔‘‘

(کتاب المساجد ،ج:1،ص:531،ط:جمعیت پبلیکیشنز )

 فتح القدير  میں ہے:

"(ولا بأس بأن يبيع ويبتاع في المسجد من غير أن يحضر السلعة) لأنه قد يحتاج إلى ذلك بأن لا يجد من يقوم بحاجته إلا أنهم قالوا: يكره إحضار السلعة للبيع والشراء. لأن المسجد محرر عن حقوق العباد، وفيه شغله بها، ويكره لغير المعتكف البيع والشراء فيه لقوله - عليه الصلاة والسلام - «جنبوا مساجدكم صبيانكم إلى أن قال وبيعكم وشراءكم»."

(كتاب الصوم ،باب الإعتكاف،ج: 2، ص:397،ط:دارالفكر)

 جوهرة النيرة  میں ہے:

"(قوله: ولا بأس أن يبيع ويبتاع في المسجد من غير أن يحضر السلعة)۔۔أما البيع والشراء للتجارة فمكروه للمعتكف وغيره إلا أن المعتكف أشد في الكراهة وكذلك يكره أشغال الدنيا في المساجد كتحبيل القعائد والخياطة والنساجة والتعليم إن كان يعمله بأجرة وإن كان بغير أجرة أو يعمله لنفسه لايكره إذا لم يضر بالمسجد."

 (كتاب الصوم ،باب الإعتكاف،ج:1، ص: 147،ط:المطبعة الخيرية) 

تبيين الحقائق  میں ہے:

(وكره إحضار المبيع والصمت والتكلم إلا بخير) أما إحضار المبيع وهي السلع للبيع فلأن المسجد محرز عن حقوق العباد وفيه شغله بها وجعله كالدكان۔۔۔۔۔۔ولغير المعتكف يكره البيع مطلقا لما روي أنه - عليه الصلاة والسلام - «نهى عن البيع والشراء في المسجد» رواه الترمذي وعنه - عليه الصلاة والسلام - أنه قال «إذا رأيتم من يبيع أو يبتاع في المسجد فقولوا له لا أربح الله تجارتك» الحديث أخرجه النسائي وقال - عليه الصلاة والسلام - «من سمع رجلا ينشد ضالة في المسجد فليقل لا ردها الله عليك»."

(كتاب الصوم ،باب الإعتكاف،ج:1، ص:351 ،ط:دارالكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

" (وكره) أي تحريما لأنها محل إطلاقهم بحر (إحضار مبيع فيه) كما كره فيه مبايعة غير المعتكف مطلقا للنھی."

 (كتاب الصوم ،باب الإعتكاف،ج:2، ص:449،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606101055

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں