بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام مسجد کا بغیر تصدیق کے کھانا قبول کرنا


سوال

 ایک مسئلہ کے بارے میں جاننا ہے ایک عالم دین ایک گاؤں کے مسجد کے امام ہیں اور پورا گاؤں ان کو کھانا کھلا رہا ہے اور وہ بلا تصدیق شرعی یعنی گاؤں والے حلال پیسے سے کھلا رہے ہیں یا حرام اس بات کی تصدیق کے بغیر کھانا کھا رہے ہیں۔ یہ عند الشرع کیسا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ  مسلمانوں سے متعلق ہمیں اچھا گمان رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، کسی بھی مسلمان  کے متعلق بلا وجہ بدگمانی رکھنے کو قرآنِ مجید نے گناہ قرار دیا ہے،  بلکہ کسی بنیاد کے بغیر مسلمان کے بارے میں بدگمانی یا اس کے  دائرۂ کار سے بھی  بڑھ کر تجسس (تفتیش) کرنا شرعًا ممنوع ہے۔

لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں اگر گاؤں کے لوگ صحیح العقیدہ مسلمان ہیں، اور جو لوگ امام صاحب  کے لیے کھانا لاتے ہوں ان کی آمدنی  حرام ہونے کے بارے میں علم نہ ہو، تو امام صاحب کا اس کی آمدنی کے متعلق تصدیق  یا پوچھ گچھ  کرنا  لازم  نہیں ، بلکہ ایسی صورت میں  ان کی تفتیش نہ کرنا ہی بہتر ہے، اور ایسے لوگوں سے تصدیق  کیے بغیر امام صاحب  کے لیے ان کا کھانا قبول کرنا جائز ہے، اور اس سے ان کے منصبِ امامت پر بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

نیز گاؤں والوں کو بھی  چاہیے کہ وہ بقدر استطاعت امام صاحب کی ضروریات کا خیال رکھیں، اور اپنی حلال آمدن سے اس کا بندوبست کریں، اور مسجد انتظامیہ کو  چاہیے کہ مسجد کے پنج وقتہ امامت کے فرائض سرانجام دینے والے امام  کے  لیے اتنی معقول تنخواہ کا انتظام کریں کہ انہیں اپنی بنیادی ضروریات کے  لیے گاؤں والوں کی طرف دیکھنا نہ پڑے۔

ہاں اگر امام صاحب کو گاؤں کے لوگوں میں سے کسی آدمی کے بارے میں علم ہو کہ اس کی آمدنی حرام ہےاور اس نے حرام آمدنی سے کھانا تیار کیا ہے تو پھر امام صاحب  کے لیے جان بوجھ کر ایسے آدمی کا کھانا کھانا جائزنہیں ہوگا، اور اگر ایسا کھانا لینا ہی پڑا تو کسی غریب کو کھلا دے، خود نہ کھائے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيراً مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا﴾[الحجرات: ١٢]
ترجمہ:" اے ایمان والو :بہت سے گمانوں سے بچا کرو؛ کیوں کہ بعضے گمان گناہ ہوتے ہیں اور سراغ مت لگایا کرو ۔" (بیان القرآن)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وشرط العدالة في الديانات) هي التي بين العبد والرب (كالخبر عن نجاسة الماء فيتيمم) ولا يتوضأ (إن أخبر بها مسلم عدل) منزجر عما يعتقد حرمته (ولو عبدا) أو أمة (ويتحرى في) خبر (الفاسق) بنجاسة الماء (و) خبر (المستور ثم يعمل بغالب ظنه، ولو أراق الماء فتيمم فيما إذا غلب على رأيه صدقه وتوضأ وتيمم فيما إذا غلب) على رأيه (كذبه كان أحوط) وفي الجوهرة: وتيممه بعد الوضوء أحوط."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 346),ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"حيث يتحرى في خبر الفاسق كالإخبار بطهارة الماء ونجاسته وحل الطعام وحرمته وبخلاف الهدية والوكالة، وما لا إلزام فيه من المعاملات حيث يقبل خبره بدون التحري للزوم الضرورة ، ولا دليل سواه فوجب قبوله مطلقا".

(2/286،البحر الرائق شرح كنز الدقائق [كتاب الصوم]-[بما يثبت شهر رمضان]-ط: دار الکتاب الاسلامی)

(مستفاد: امدادالفتاویٰ ، 4/121, ہدیہ اور دعوت کے متعلق احکام، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی ۔۔و۔۔۔ فتاوی محمودیه، 18/133،باب الضیافات و الہدایا،ط: فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100688

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں