بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امام چار رکعت والی فرض نماز میں پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہوجائے تو امام، مقتدی اور مسبوق کی نماز کا حکم


سوال

اگر امام غلطی سے چار رکعت والی نماز میں پانچویں رکعت میں چلا جائے،تو امام اور مقتدیوں کی نماز فاسد ہوجائے گی؟  پھر جو مسبوقین ہیں ان کا کیا حکم ہے؟ ان کی تو رکعتیں پوری ہو گئیں،آیا اب ان کی نماز بھی امام کے تابع ہونے کی وجہ سے فاسد ہوگئی یا نہیں؟

جواب

اگر امام غلطی سے چار رکعت والی فرض نماز میں پانچویں رکعت کے لیے کھرا ہوجائے تو امام اور مقتدیوں کی نماز مطلقا فاسد نہیں ہوتی،  بلکہ اس میں یہ تفصیل ہے کہ :

  اگر امام چوتھی رکعت کے قعدہ میں بیٹھا تھا اور اس کے بعد  پانچویں رکعت کے لیے غلطی سے کھڑا ہوگیا تو  اس کے لیے یہ حکم ہے کہ  جب تک  وہ پانچویں رکعت کا سجدہ  نہ کرلے  قعدہ  کی طرف  واپس لوٹ آئے  اور سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرلے، اور اگر  پانچویں رکعت کا سجدہ کرلیا ہو تو اب اس کے  ساتھ چھٹی رکعت بھی ملادے اور آخر میں سجدہ سہو کرلینے سے نماز ہوجائے گی، چار رکعت فرض اور دو نفل ہوجائے گی۔

اور اگر امام نے  چوتھی رکعت پر قعدہ  نہیں کیا تھا اور اس کے بعد پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہوگیا تو پانچویں رکعت کے سجدہ سے پہلے پہلے واپس قعدہ میں آجائے، اور سجدہ سہو کرکے نماز  مکمل کرلے، اور اگر پانچویں رکعت کا سجدہ بھی کرلیا ہو تو اب  فرض نماز باطل ہوگئی،  اب اس نماز کا اعادہ کرنا لازم ہے۔ 

اور اس صورت میں مقتدی کے لیے یہ حکم ہے کہ :

مقتدی امام کے ساتھ  کھڑا نہ ہو،  بلکہ امام کا انتظار کرے،  اگر امام پانچویں رکعت کے سجدہ کر لینے سے پہلے لوٹ آیا اور وہ قعدہ  آخرہ کر چکا تھا تو مقتدی بھی اس کا ساتھ دے اور اس کے ساتھ  سلام پھیر دے اور اس کے ساتھ  سجدہ سہو کرے اور اگر امام نے پانچویں رکعت کا سجدہ کر لیا تو مقتدی تنہا سلام پھیردے، اس کی نماز ہوجائے گی۔

اور اگر امام نے قعدہ آخرہ نہیں کیا تھا اور وہ پانچویں رکعت کے سجدے سے پہلے لوٹ آیا  تب تو مقتدی اس کا ساتھ دے،  لیکن اگر پانچویں رکعت کا سجدہ کر لیا تو امام اور مقتدی سب کی نماز فاسد ہو جائے گی، سب نئے سرے سے پڑھیں گے۔‘‘  (عمدۃ الفقہ ، سید زوار حسین شاہ صاحب : 2/ 218 زوار اکیڈمی پبلیکشنز)

اور مسبوق کا حکم یہ ہے کہ :

 اگر امام چوتھی رکعت کے قعدہ میں بیٹھنے کے بعد بھول سے کھڑا ہوگیا تھا اور اس کے ساتھ  مسبوق  بھی اس کی اقتدا میں کھڑا ہوگیا تھا تو  امام کی اتباع میں کھڑے ہوتے ہی اس  کی نماز فاسد ہو گئی ، اس پر لازم تھا کہ بیٹھا رہتا اور امام کے لوٹنے کا انتظار کرتا اور امام کے سلام پھیر لینے کے بعد بقیہ نماز پوری کرنے کے لیے کھڑا ہوتا، لیکن اگر امام چوتھی رکعت کے قعدہ میں بیٹھے بغیر ہی پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہو گیا  تھا اور اس کے ساتھ  مسبوق  بھی اس کی اقتدا میں  کھڑا ہوگیا تھا  تو اس صورت میں امام کی اتباع میں کھڑے ہونے سے  اس  کی نماز فاسد نہیں ہوئی، البتہ چوتھی رکعت کے قعدہ میں بیٹھے بغیر پانچویں رکعت کا سجدہ کرتے ہی امام کی  فرض نماز باطل ہوگئی اور مکمل نماز نفل بن گئی اور امام کے ساتھ  مسبوق  کی نماز بھی نفل بن گئی، اب امام کے سلام پھیرنے کے بعد مسبوق  وہ والی ایک رکعت بھی پڑھ لے جو اس سے شروع میں چھوٹ گئی تھی، لیکن امام اور تمام مقتدیوں بشمول مسبوقین پر لازم ہے کہ اپنی اس فرض نماز کو دوبارہ نئے سرے سے پڑھیں، کیوں کہ فرض (یعنی قعدہ اخیرہ ) چھوٹنے کی وجہ سے کسی کی بھی  فرض نماز ادا نہیں ہوئی۔

الفتاوى الهندية (1/ 129):
’’رجل صلى الظهر خمساً وقعد في الرابعة قدر التشهد إن تذكر قبل أن يقيد الخامسة بالسجدة أنها الخامسة عاد إلى القعدة وسلم، كذا في المحيط. ويسجد للسهو، كذا في السراج الوهاج. وإن تذكر بعدما قيد الخامسة بالسجدة أنها الخامسة لايعود إلى القعدة و لايسلم، بل يضيف إليها ركعةً أخرى حتى يصير شفعاً ويتشهد ويسلم، هكذا في المحيط. ويسجد للسهو استحساناً، كذا في الهداية. وهو المختار، كذا في الكفاية. ثم يتشهد ويسلم، كذا في المحيط. والركعتان نافلة ولا تنوبان عن سنة الظهر على الصحيح، كذا في الجوهرة النيرة ... وإن لم يقعد على رأس الرابعة حتى قام إلى الخامسة إن تذكر قبل أن يقيد الخامسة بالسجدة عاد إلى القعدة، هكذا في المحيط. وفي الخلاصة: ويتشهد ويسلم ويسجد للسهو، كذا في التتارخانية. وإن قيد الخامسة بالسجدة فسد ظهره عندنا، كذا في المحيط‘‘

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 12):

"وأربعة لايتبع فيها: زيادة تكبير عيد، أو جنازة، وركن، وقيام لخامسة. 

(قوله: وقيام لخامسة) داخل تحت قوله: وركن، تأمل. قال في شرح المنية: ثم في القيام إلى الخامسة إن كان قعد على الرابعة وينتظره المقتدي قاعدًا، فإن سلم من غير إعادة التشهد سلم المقتدي معه وإن قيد الخامسة بسجدة سلم المقتدي وحده؛ وإن كان لم يقعد على الرابعة. فإن عاد تابعه المقتدي، وإن قيد الخامسة فسدت صلاتهم جميعًا، ولاينفع المقتدي تشهده وسلامه وحده. اهـ"

وفیہ ایضا (1/ 599):

’’ و لو قام إمامه لخامسة فتابعه، إن بعد القعود تفسد و إلا لا حتى يقيد الخامسة بسجدة.

 (قوله: أن بعد القعود) أي قعود الإمام القعدة الأخيرة (قوله: تفسد) أي صلاة المسبوق؛ لأنه اقتداء في موضع الانفراد، و لأن اقتداء المسبوق بغيره مفسد، كما مر (قوله: وإلا) أي وإن لم يقعد و تابعه المسبوق لاتفسد صلاته؛ لأن ما قام إليه الإمام على شرف الرفض و لعدم تمام الصلاة، فإن قيدها بسجدة انقلبت صلاته نفلاً، فإن ضم إليها سادسةً ينبغي للمسبوق أن يتابعه ثم يقضي ما سبق به وتكون له نافلة كالإمام، ولا قضاء عليه لو أفسده؛ لأنه لم يشرع فيه قصداً، رحمتي‘‘.

 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201157

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں