بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام بخاری رحمہ اللہ کا قوت حافظہ


سوال

امام بخاری پر تحقیقی جائزہ ۔۔۔ بخاری صاحب کی 61 سال کی زندگی تھی، اس میں 10 سال ان کے لڑکپن کی عمر نکال دیں۔ باقی کے جو 51 سال ہیں ان میں بخاری صاحب نے 6 لاکھ حدیثوں کو لوگوں سے سنا اور یاد کیا، اور کتاب میں بھی لکھا ۔۔۔ اب 1 سال 365 دنوں کا ہوتا ہے، اب ہم بخاری صاحب کی حدیث جمع کرنے والی 51 سالہ زندگی کو دنوں پر convert کر لیتے ہیں ۔۔۔ بخاری صاحب نے جن 51 سالوں میں حدیثوں کو سنا اور یاد کیا اور کتاب میں لکھا ان 51 سالوں کو 365 دن سے ضرب دے دیجیے، تو 18،615 دن بن رہے ہیں، یعی بخاری صاحب نے 18،615 دنوں کی زندگی میں 6 لاکھ  حدیثوں کو سنا، یاد کیا اور کتاب میں لکھا ۔۔۔ اس حساب سے اب ہمیں یہ جاننا ہے کہ ایک دن میں بخاری صاحب نے کتنی حدیثوں کو سنا، یاد کیا اور لکھا تھا، اس کے لیے اب ہم 6 لاکھ  حدیثوں کو 18،615 دنوں سے تقسیم کر دیتے ہیں، جواب آئے گا 32 حدیث ۔۔۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ایران میں رہنے والا 10 سالہ بچہ دن کے 10 سے 12 گھنٹوں میں 32 حدیثوں کو ٹھیک ٹھیک سن لے، اور اس پر تحقیق بھی کر لے پھر اس کو ٹھیک ٹھیک یاد بھی کر لے، اور پھر اس کو ٹھیک ٹھیک کتاب میں بھی لکھ  لے، اور پھر اس کو وحی کا درجہ بھی دے ۔۔۔ کیا یہ ممکن ہے ۔۔۔؟؟؟ وہ بھی 10 سال کی عمر میں ۔۔۔؟؟؟ اگر ممکن ہے تو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں اس بچے کا بھی نام درج ہونا چاہیے ۔۔۔ بخاری صاحب کا ریکارڈ صرف یہی نہیں ہے، بلکہ بقول بخاری صاحب کہ وہ ہر حدیث کے لیے دو نفل نماز بھی ادا کیا کرتے تھے ۔۔۔ اب بخاری صاحب کی جمع کردہ 6 لاکھ  حدیثوں کو 2 نفل سے ضرب دیں تو جواب آئے گا 12 لاکھ ۔۔۔ یعنی 51 سالوں میں 12 لاکھ  رکعت نفل کا بھی ریکارڈ بنایا ہے ۔۔۔ پھر بخاری صاحب کا وہ وقت جب وہ حدیث کے لئے دور دراز ایک شہر سے دوسرے شہر جاتے تھے، وہ سفر کا وقت count ہی نہیں کیا ہے، اس زمانے میں نہ کوئی سی این جی گاڑی تھی، نہ ہوائی جہاز تھا، نہ کوئی ٹرین تھی، جب ایک شہر سے دوسرے کسی قریبی شہر جانے کے لئے بھی کم از کم سفر میں 5 سے 10 گھنٹے لگتے ہو ں گے ۔۔۔ سمجھ  نہیں آتا اس دور میں اس بچہ نے 51 سالہ زندگی میں ایک شہر سے دوسرے شہر جا کر 6 لاکھ  حدیث کیسے جمع کی اور کیسے 12 لاکھ  رکعت نفل ادا کئے ہوں گے ۔۔۔ کیا یہ سب ممکن ہے ۔۔۔؟؟؟ اگر ممکن ہے تو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں اس بچے کا بھی نام درج ہونا چاہئے ۔۔۔ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ سلجھ جائے یہ قوم ۔۔۔ بہت سوچ سمجھ کر اہل دانش نے الجہایا ہے اسے ۔۔۔ تحریر: عدنان شیراز

جواب

واضح رہے کہ حافظہ اللہ تعالی کی طرف سے ودیعت کردہ ایک فطری صلاحیت ہےجو اللہ تعالی نے ہر انسان میں ودیعت کررکھی ہے،انسان اس حافظہ کو جس قدر  استعمال میں لاکرمختلف چیزوں کویاد کرکے اپنے حافظہ میں محفوظ کرتا ہے تو اس سے حافظہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جاتا ہے،پھر ایسی چیز کویاد کرنے میں  کسی ایسے شخص کو نسبتاً کم وقت لگتا ہے جواپنی  اس  فطری صلاحیت کومستقل استعمال میں لاتا رہتاہو۔ عام طور پرمحدثین کرام رحمہم اللہ کے حافظہ کواپنے حافظہ پر قیاس کرنے کی وجہ سے  اشکال ہوتا ہے،حقیقت یہ ہے کہ ہم اہلِ عجم کی نسبت   اہلِ عرب میں  قدیم زمانہ سے اس خدا داد صلاحیت کو استعمال میں لاتے ہوئے مختلف  مفید چیزوں کو یاد کرتے رہنے کاعام  رواج ہے اور انہیں اس سلسلے  میں خاص امتیاز حاصل ہے، ان میں لکھنے کاعام رواج نہیں تھا ،بلکہ  لکھنے کی بہ نسبت یاد کر نا ان کاطبعی ذوق تھا،وہ اشعار کے کئی دواوین یاد کرلیاکرتے تھے، بعض ان میں ایسے بھی تھے کہ جو کوئی شعر ایک بار سنتے انہیں یاد ہوجاتا تھا ،چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں  نےقصیدہ عمر بن ابی ربیعہ پورا ایک بار سن کر یاد کرلیاتھا،اسی طرح امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:میں بقیع کے راستے سے گزرتا ہوں تواپنے کانوں کوبند کرلیتا ہوں  کہ کہیں کوئی فحش بات میرے کان میں نہ پڑجائے،کیوں کہ بخدا! میرے کان میں جوبات بھی پڑی پھر میں اسے بھولا نہیں ۔

ظاہر ہے کہ انسان جس ماحول میں نشوونما پاتا ہےوہ اسی کاخوگر ہوتا ہےاور جس چیز کا انسان خوگر ہو  اسےوہ بجالانابہ نسبت اس کے آسان ہوتا ہے جو  اس چیز کا خوگر نہ ہو،یہی وجہ ہے کہ ( اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ کی خصوصیت نہیں بلکہ)ایک عرب معاشرہ  میں پروان چڑھنے والا ہر  بچہ اپنے ماحول کے زیرِ اثرقوتِ حافظہ کو استعمال میں لانے کا خوگر ہوتاہے،اسی لیے  اسے مختلف چیزوں کو سمجھ کر فوری یاد کرلینا نسبتاً آسان ہوتاہے۔ اور اب توموجودہ دور میں بھی   اس طرح کے مختلف  واقعات رو نما ہورہے ہیں ،چنانچہ حال ہی میں سعودی عرب کےدار الحکومت ریاض میں 2002ء میں پیدا ہونے   والےایک نوجوان  جہاد بن مطیب المالکی نے(جو بصارت سے بھی محروم ہے)  کتبِ ستہ(صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن نسائی، سننِ ترمذی اور سنن ابنِ ماجہ)   سمیت اٹھارہ کتابیں زبانی کرلی ہیں،  اس طرح کے واقعات  آ ئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں ،اس لیے اب یہ قابلِ تعجب بات نہیں رہی۔

 2۔ امام بخاری رحمہ اللہ خود  فرماتے ہیں :’’میں نے اسے(صحیح بخاری کو) چھ لاکھ احادیث سے منتخب کیاہےاور سولہ سال میں تصنیف کیا ہے‘‘ ۔اسی طرح فرماتے ہیں:’’ ہر حدیث کو صحیح بخاری میں لکھنے سے قبل غسل فرماکر دو رکعت نفل ادا کی ہے‘‘۔ نیزفرماتےہیں:میں نے اپنی یہ کتاب’’ الجامع ‘‘مسجدِ حرام میں تصنیف کی ہے(یعنی اس کی تصنیف وترتیب اورابواب کی ابتداء مسجدِ حرام میں کی ہے)، اور ہر حدیث کو کتاب میں شامل کرنے سے پہلے استخارہ کیا ہے ،دورکعت  نفل ادا کی ہے اور پھر ( اللہ تعالی کی ذات سے)اس حدیث  کی صحت کا یقین کیا ہے‘‘،غرض  یوں سولہ(16 )سال دن ورات جدوجہد کرکے یہ کتاب تحریر فرمائی۔صحیح بخاری میں  مکررات سمیت مرفوع احادیث کی تعداد   سات ہزار تین سو ستانوے(7397) ہے ، غیر مکرر   مرفوعات کی تعداد دو ہزار چھ سو دو(2602) ہے،معلقات کی تعداد تیر ہ سواکتالیس (1341)ہے،متابعات کی تعداد تین سو  اکتالیس  (341) ہے،  ان سب کی مجموعی تعدا  دنو ہزار بیاسی ( 9082 )ہے۔

مذکورہ    تفصیل سے صحیح بخاری کی تصنیف میں  امام بخاری رحمہ اللہ  کے اہتمام کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہوگیاکہ اما م بخاری رحمہ اللہ نے اسے چھ لاکھ احادیث سے انتخاب کیا ہے، تاہم آپ کے ان الفاظ میں  چھ لاکھ احادیث  کے یاد ہونے کاذکر نہیں ہے،جیساکہ سائل کو تسامح ہواہے، عین ممکن ہےکہ چھ لاکھ احادیث کی ایک معتد بہ  تعدا د یاد  کر رکھی ہو اور باقی لکھ رکھی ہو ، جیساکہ آپ  ہی کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے،چنانچہ  فرماتےہیں:مجھے ایک لاکھ صحیح احادیث اور دولاکھ غیر صحیح احادیث یاد ہیں (تاکہ میں صحیح اورغیر صحیح احادیث میں فرق کرسکوں)‘‘، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو تین لاکھ احادیث، صحیح وغیر صحیح، یاد تھیں۔

تاہم اس پر سائل نے جو اشکال ذکر کیا ہے، اہلِ اصول نے اس کے کئی  جوابات ذکر کیے ہیں:

1۔حافظ ابنِ صلاح رحمہ اللہ  اس کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:اس عبارت کے تحت محدثین کے نزدیک آثارِ صحابہ وتابعین بھی درج ہیں، اور بسا اوقات دو سندوں سے مروی ایک ہی حدیث کو تعداد میں دو شمار کیا جاتا ہے۔

2۔علامہ زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :  متقدمین (محدثین) کئی سندوں سے مروی ایک حدیث کو تعداد کے اعتبار سے کئی احادیث شمار کرتے ہیں، یوں (کثیر تعداد کا) معاملہ آسان ہوجاتا ہے؛ کیوں کہ بسا اوقات ایک حدیث کی سو یا زیادہ سندیں بھی ہوتی ہیں۔

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہواکہ  محدثین رحمہم اللہ کی اس طرح کے الفاظ ،جن میں  احادیث کی کثرت مذکور ہو، اُن سے مراد یہ ہے کہ وہ حضرات ایک روایت کو کئی سندوں سے مروی ہونے کی بناپر کئی شمار کرتے ہیں اور اس اعتبار سے تو کسی حدیث کی سندیں سو سے بھی زیادہ ہوسکتی ہیں ، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ کے مذکورہ الفاظ اوردیگر محدثین کے اسی نوعیت کے جملوں کے ظاہر  سے  اشکال نہیں  ہوناچاہیے۔

3۔امام بخاری رحمہ اللہ  کے حالاتِ زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ جب آپ کی عمر دس سال ہوئی  تو آپ علم ِ حدیث کی تحصیل شروع کرچکے تھے اور سولہ سال کی عمر میں آپ حصولِ علم کی خاطر  علمی اسفار کی ابتداء فرماچکے تھے،چنانچہ محمد بن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’میں نے ابو عبد اللہ (امام بخاری رحمہ اللہ )سےپوچھا:آپ کے اس معاملے(علمِ حدیث ) کی ابتداء کیسے ہوئی تھی؟تو فرمانےلگے:جب میں مکتب میں تھا تو میرے دل میں حدیث یاد کرنے کی بات   ڈالی گئی ، میں نے پوچھا:اس وقت آپ کی عمر کتنی تھی؟تو فرمانے لگے:دس سال یا اس سے کم،بعد زاں دس سال کی عمر میں ،میں مکتب  سے  نکل کر(محدث) داخلی   وغیرہ کےپاس آنے جانےلگا،ایک   دن انہوں نے لوگوں کو  املاء کراتے ہوئے پڑھا: سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ إِبْرَاهِيْمَ(یعنی سفیان ابوزبیر سے اور وہ ابراہیم سے حدیث روایت کرتے ہیں )،میں نے عرض کیا:ابو زبیر نے ابراہیم سے روایت نہیں  کی(یعنی آپ کو اس سند میں کوئی غلطی لگ رہی ہے)تو انہوں نے مجھے جھڑکا، میں نےعرض کیا:اصل کتاب کی طرف مراجعت کرلیجیے،چنانچہ وہ گھر کے اندر داخل ہوئے،اصل کتاب دیکھی(تو انہیں اپنی غلطی کا اندازہ ہوگیا) پھر باہر تشریف  لائے تو مجھ سے فرمانےلگے:لڑکے!پھر  صحیح کس طرح سےہے؟میں نے عرض کیا: : هُوَ الزُّبَيْرُ بنُ عَدِيٍّ، عَنْ إِبْرَاهِيْمَ(یعنی درست ابو زبیر نہیں ،بلکہ زبیر بن عدی ہےجنہوں نے ابراہیم سے روایت کی ہے)تو مجھ سے قلم لےکر تصحیح کی  اور فرمانےلگے:تم  نے سچ کہا۔امام بخاری رحمہ اللہ سے پوچھاگیا:جب آپ نے انہیں ٹوکا تھا اس وقت آپ کی عمر کتنی تھی؟تو فرمانےلگے:گیارہ سال۔جب میری عمر سولہ سال ہوئی تو ابنِ مبارک اور وکیع کی کتابیں یاد کرچکا تھا اور میں ان جیسی شخصیات کے کلام کو جانتا تھا،پھر میں اپنی والدہ اور اپنے بھائی احمد کے ساتھ مکہ مکرمہ روانہ ہوا، جب میں حج سے فارغ ہواتو میرے بھائی تو(والدہ کے ہمراہ) واپس ہوگئے اور میں حصولِ حدیث کے لیے وہیں رک گیا‘‘۔ مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ دس سال کی عمر   میں علمِ حدیث کی تحصیل شروع  فرماچکے تھےاور سولہ سال کی عمر میں علمِ حدیث   کے حصول کے لیے  سفرفرمانےلگے تھے۔

            باقی  روزانہ کی بنیاد پر آپ کے تعلیمی دورانیہ کتنا تھا؟اس کے بارے میں  ہمیں کوئی صراحت نہیں مل سکی ،سائل نے  آپ  کے یومیہ تعلیمی اوقات کے متعلق جو دس سےبارہ گھنٹے کا ذکر کیا ہے،بظاہر وہ اپنے ہاں  کے تعلیمی اوقات کے اعتبار سے ایک اندازہ  ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ تحصیل ِ علم سے متعلق اسلاف  کے واقعات کے مطالعہ سے  معلوم ہوتا ہےکہ وہ حضرات اوقات ِ تعلیم اور عمر کی قید سے آزاد ہوکر،نیز آرام وراحت، خوردونوش  وغیرہ،سب   کچھ سے بے نیازہوکر  حصولِ علم  میں مشغول ہوتے تھے،بلکہ ان  حضرات کے ہاں علم اور تن پروری کے درمیان  گویا ایک طرح کا بعد تھا،چنانچہ عبد اللہ بن یحیی بن ابی کثیر  رحمہ اللہ فرماتے ہیں:میں نے اپنے والد(یحیی بن ابی کثیر )کو یہ فرماتے ہوئےسنا:تن پروری کے ساتھ علم نہیں آسکتا۔

حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی کتاب "الرحلة في طلب الحديث"اورشیخ عبد الفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ کی کتاب "صفحاتٌ من صبر العلماء على شدائد العلم والتحصيل"  کے مطالعہ سےحصول ِ علم میں اسلاف کے جدوجہد،صبروتحمل وغیرہ   کاکچھ اندازہ ہوتا ہے۔

4۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی طرف سے کوئی بات  ارشاد نہیں فرماتے ، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو  بات بھی ارشاد فرماتے تھے وہ اللہ تعالی کی طرف سے وحی  کی روشنی میں ہوتی ہے، چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فرماتےہیں:

"وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى (3) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (4)"

(النجم:3-4)

ترجمہ:

            ’’اورنہ آپ اپنی نفسانی خواہش سےباتیں بناتےہیں(جیساکہ تم لوگ کہتے ہوافْتَرَاهُ،بلکہ ان کاارشاد تو نری وحی ہےجوان پر بھیجی جاتی ہے(خواہ الفاظ کی بھی وحی ہوجوقرآن کہلاتا ہے،خواہ صرف معانی کی ہو جوسنت کہلاتی ہے۔۔۔۔)

(بیان القرآن،سورہ نجم، ج:۳،ص:۴۶۸،ط:ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ ملتان)

            مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ دونوں اللہ تعالی کی طرف سے وحی کردہ ہیں اوراللہ تعالی نے ہی انہیں وحی کادرجہ دیا ہے،امام بخاری رحمہ اللہ نے انہیں(احادیث مبارکہ ) کو وحی کا درجہ نہیں دیا، البتہ یہ ضرور ہے کہ انہوں نے سندوں کے اعتبار سے احادیث کی چھان پھٹک کرکے صحیح احادیث  کی ایک معتدبہ مقدار منتخب کرکے اپنی کتاب میں شامل کی ہے۔

 5۔امام بخاری رحمہ اللہ  جو ہر حدیث کے لیے دو رکعت نفل پڑھتے تھے اس سے مراد یہ ہے کہ بخاری شریف میں لکھنے کے لیے جو حدیث منتخب فرماتےتھے اس کے لیے دو رکعت نفل ادا کرتے  تھے نہ کہ چھ لاکھ حدیثوں  میں سے ہر حدیث کے لیے، جیسا کہ سائل کی تحریر میں یہ تسامح ہوا ہے،  اس اعتبار سے نوافل کی تعداد بھی کم ہوجاتی ہے اورنوہزار بیاسی (9082) احادیث میں سے ہر حدیث کو لکھنے سے پہلے غسل کرنا اور دورکعت نفل ادا کرناکوئی بعید ازعقل بات  نہیں ۔

6۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ یہود ونصاری کی طرف سے مرتب کردہ کتاب ہے  جس میں کائنات میں واقع ہوئے مشہور واقعات کو جمع کیا گیا ہے  ،اگرچہ اس میں امام بخاری کا نام موجود نہ ہو تب بھی ان کی شان میں اس کی وجہ سے کمی نہیں آئے گی اور نہ یہود ونصاری کی مرتب کردہ کتاب ہمارے لیے حجت اور دلیل ہے ،لہذا امام بخاری رحمہ اللہ کا اتنی کثیر مقدار میں احادیث یاد کرنااورپھر بخاری شریف میں حدیث لکھنے کے لیے نفل وغیرہ کا اہتمام کرنا،کوئی ایسی بات نہیں جس کا انکار کیا جاسکے۔

7۔سلفِ صالحین وقت کی   قدروقیمت اور اہمیت کو سمجھتے تھے، اسی لیے وہ حضرات اپنے  دن رات کے اوقات کی حفاظت  کیا کرتے تھے اور اس میں  غیر ضروری  چیزوں سے پرہیز  کرتے ہوئے دینی اور اخروی اعتبار سے  مفید اور قیمتی امور میں  نظام الاوقات کے تحت  اوقات صرف فرمایاکرتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ  ان حضرات کے اوقات  میں برکت  ہوتی تھی  اور کم سےکو وقت  میں ان حضرات سے ایسے امور صادر ہوتے تھے ، ان واقعات کو ہم اپنی وقت  کے ضیاع اور اس میں غیرمنظم ہونے پرسوچتے ہوئے مستبعد سمجھتے ہیں ، جب کہ امام بخاری  رحمہ اللہ  اور ان جیسی شخصیات  کے یہ واقعات   وقت کی اسی حفاظت،نظم وضبط   کی وجہ سے ظہور پذیر ہوئے ہیں۔

            ذیل میں وقت کی قدروقیمت کے سلسلے میں  چند  واقعات ذکرکیے جاتے ہیں،تاکہ ان حضرات کے وقت کی قدردانی کا ایک اندازہ ہوجائے:

            ۱۔حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ نے ایک رکعت میں پورا قرآنِ کریم ختم کیا۔

            ۲۔حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:میں  نے ایک مرتبہ کعبہ کے اندر ایک رکعت میں پورا قرآنِ کریم ختم کیا۔

            ۳۔حضرت سلیم بن عتر  رحمہ اللہ ہررات میں تین قرآنِ کریم ختم فرماتےتھے۔

            ۴۔حضرت مجاہد رحمہ اللہ مغرب اور عشاء کے درمیان  ایک قرآنِ کریم ختم فرماتےتھے۔

            ۵۔حضرت علی ازدی رحمہ اللہ رمضان المبارک  کی ہر رات میں مغرب اور عشاء کے درمیان  ایک قرآنِ کریم ختم فرماتے ہیں۔

            ۶۔حضرت منصور بن زاذا ن رحمہ اللہ ظہر اور عصر کے درمیان ایک قرآنِ کریم ختم فرماتےتھے،اور مغرب اور عشاء کے درمیان دوسرا قرآنِ کریم ختم فرماتے تھے۔

            ۷۔امام شافعی رحمہ اللہ رمضان المبارک میں رات اور دن میں دو قرآنِ کریم ختم فرماتے تھے ،جب کہ عام دنوں میں روزانہ ایک  قرآنِ کریم ختم فرماتےتھے۔

            ۸۔امام بخاری رحمہ اللہ رمضان المبارک میں   دن ورات میں ایک قرآنِ کریم ختم فرماتےتھے۔

            ۹۔حضرت ابنِ کاتب  رحمہ اللہ  دن میں چار اوررات  میں چار قرآنِ کریم ختم فرماتے تھے(یعنی روزانہ آٹھ قرآنِ کریم ختم فرماتے تھے)۔

            مذکورہ واقعات سے اندازہ یہ ہوتا ہے کہ سلفِ صالحین  کس قدروقت کے قدر دان تھے، لہذا ان حضرات کو  اس سلسلے میں اپنے احوال پر قیاس کرنا مناسب نہیں۔

جامع بیان العلم وفضلہ میں ہے :

"وقال النبي صلى الله عليه وسلم: «‌نحن ‌أمة ‌أمية لا نكتب ولا نحسب» وهذا مشهور أن العرب قد خصت بالحفظ كان بعضهم يحفظ أشعار بعض في سمعة واحدة وقد جاء أن ابن عباس رضي الله عنه حفظ قصيدة عمر بن أبي ربيعة:[البحر الطويل]أمن آل نعم أنت غاد فمبكرفي سمعة واحدة على ما ذكروا".

(باب ذکر کراہیۃ کتابۃ العلم ،ج:1،ص:294،دارابن الجوزی)

وفيه أيضاّ:

"قال أبو عمر: من ذكرنا قوله في هذا الباب فإنما ذهب في ذلك مذهب العرب؛ لأنهم كانوا مطبوعين على الحفظ مخصوصين بذلك والذين كرهوا الكتاب كابن عباس، والشعبي، وابن شهاب، والنخعي، وقتادة ومن ذهب مذهبهم وجبل جبلتهم كانوا قد طبعوا على الحفظ فكان أحدهم يجتزئ بالسمعة، ألا ترى ما جاء عن ابن شهاب أنه كان يقول: «إني لأمر بالبقيع فأسد آذاني مخافة أن يدخل فيها شيء من الخنا فوالله ما دخل أذني شيء قط فنسيته»".

(باب ذکر کراہیۃ کتابۃ العلم ،ج:1،ص:294،دارابن الجوزی)

مقدمہ فتح الباری میں ہے :

"قال أبو الهيثم الكشميهني: سمعت الفربري يقول: سمعت محمد بن إسماعيل البخاري يقول: ما وضعت في كتاب الصحيح حديثا إلا اغتسلت قبل ذلك وصليت ركعتين وعن البخاري قال: صنفت الجامع من ستمائة ألف حديث في ست عشرة سنة وجعلته حجة فيما بيني وبين الله، وقال أبو سعيد الإدريسي: أخبرنا سليمان بن داود الهروي سمعت عبد الله بن محمد بن هاشم يقول: قال عمر بن محمد بن بجير البجيري: سمعت محمد بن إسماعيل يقول: صنفت كتابي الجامع في المسجد الحرام وما أدخلت فيه حديثا حتى استخرت الله تعالى وصليت ركعتين وتيقنت صحته قلت: الجمع بين هذا وبين ما تقدم أنه كان يصنفه في البلاد أنه ابتدأ تصنيفه وترتيبه وأبوابه في المسجد الحرام ثم كان يخرج الأحاديث بعد ذلك في بلده وغيرها ويدل عليه قوله إنه أقام فيه ست عشرة سنة فإنه لم يجاور بمكة هذه المدة كلها وقد روى بن عدي عن جماعة من المشايخ أن البخاري حول تراجم جامعه بين قبر النبي صلى الله عليه وسلم ومنبره وكان يصلي لكل ترجمة ركعتين قلت: ولا ينافي هذا أيضا ما تقدم لأنه يحمل على أنه في الأول كتبه في المسودة وهنا حوله من المسودة إلى المبيضة".

(ذکر فضائل الجامع الصحیح ،ج:1،ص:489،دارالمعرفۃ)

وفيه أيضاّ:

"فجميع ما في صحيح البخاري من المتون الموصولة بلا تكرير على التحرير ألفا حديث وستمائة حديث وحديثان ومن المتون المعلقة المرفوعة التي لم يوصلها في موضع آخر من الجامع المذكور مائة وتسعة وخمسون حديثا فجميع ذلك ألفا حديث وسبعمائة وأحد وستون حديثا وبين هذا العدد الذي حررته والعدد الذي ذكره بن الصلاح وغيره تفاوت كثير وما عرفت من أين أتى الوهم في ذلك ثم تأولته على أنه يحتمل أن يكون العاد الأول الذي قلدوه في ذلك كان إذا رأى الحديث مطولا في موضع ومختصرا في موضع آخر يظن أن المختصر غير المطول إما لبعد العهد به أو لقلة المعرفة بالصناعة ففي الكتاب من هذا النمط شيء كثير وحينئذ يتبين السبب في تفاوت ما بين العددين والله الموفق".

(ذکر عدۃ ما لکل صحابی فی صحیح البخاری،ج:1،ص:477،دارالمعرفۃ)

وفيه أيضاّ:

"فجملة ما في الكتاب من التعاليق ألف وثلاث مائة واحد وأربعون حديثا وأكثرها مكرر مخرج في الكتاب أصول متونه وليس فيه من المتون التي لم تخرج في الكتاب ولو من طريق أخرى إلا مائة وستون حديثا قد أفردتها في كتاب مفرد لطيف متصلة الأسانيد إلى من علق عنه وجملة ما فيه من المتابعات والتنبيه على اختلاف الروايات ثلاثمائة واحد وأربعون حديثا فجميع ما في الكتاب على هذا بالمكرر تسعة آلاف واثنان وثمانون حديثا وهذه العدة خارج عن الموقوفات على الصحابة والمقطوعات عن التابعين فمن بعدهم".

(الفصل العاشر فی عد احادیث الجامع،ج:1،ص:469،دارالمعرفۃ)

مقدمہ ابن الصلاح میں ہے :

"وقد قال البخاري: " أحفظ مائة ألف حديث صحيح، ومائتي ألف حديث غير صحيح "، وجملة ما في كتابه الصحيح سبعة آلاف ومائتان وخمسة وسبعون حديثا بالأحاديث المتكررة. وقد قيل: إنها بإسقاط المكررة أربعة آلاف حديث، إلا أن هذه العبارة قد يندرج تحتها عندهم آثار الصحابة والتابعين، وربما عد الحديث الواحد  المروي بإسنادين حديثين".

(ص:21،دارالفكر)

النکت علی مقدمہ ابن الصلاح للزرکشی میں ہے :

"ولعله أراد لو صنف على أن الأقدمين يطلقون العدد من الأحاديث على الحديث الواحد المروي بعدة أسانيد وعلى هذا فيسهل الخطب فرب حديث له مائة طريق وأكثر".

(ج:1،ص:181،اضواءالسلف)

سیر اعلام النبلاء میں ہے :

"‌وبالسند ‌الماضي إلى محمد بن أبي حاتم قال: قلت لأبي عبد الله: كيف كان بدء أمرك؟ قال: ألهمت حفظ الحديث، وأنا في الكتاب فقلت: كم كان سنك؟ فقال: عشر سنين، أو أقل ثم خرجت من الكتاب بعد العشر فجعلت أختلف الداخلي، وغيره فقال يوما فيما كان يقرأ للناس: سفيان عن أبي الزبير عن إبراهيم فقلت له: إن أبا الزبير لم يرو عن إبراهيم فانتهرني فقلت له: ارجع إلى الأصل فدخل فنظر فيه ثم خرج فقال لي: كيف هو يا غلام? قلت: هو الزبير بن عدي عن إبراهيم فأخذ القلم مني، وأحكم كتابه وقال: صدقت فقيل للبخاري: ابن كم كنت حين رددت عليه? قال: ابن إحدى عشرة سنة فلما طعنت في ست عشرة سنة كنت قد حفظت كتب ابن المبارك، ووكيع وعرفت كلام هؤلاء ثم خرجت مع أمي، وأخي أحمد إلى مكة فلما حججت رجع أخي بها! وتخلفت في طلب الحديث".

(ج:10،ص:80،دارالحدیث)

تفسیر ابن کثیر میں ہے :

"وقال -أيضا-: حدثنا أبو معاوية، عن عاصم بن سليمان، عن ابن سيرين: أن تميما الداري قرأ القرآن في ركعة ،حدثنا حجاج بن شعبة، عن حماد، عن سعيد بن جبير: أنه قال: قرأت القرآن في ركعة في البيت -يعني الكعبة  .وحدثنا جرير، عن منصور، عن إبراهيم، عن علقمة أنه قرأ القرآن في ليلة، طاف بالبيت أسبوعا، ثم أتى المقام فصلى عنده فقرأ بالطول، ثم طاف بالبيت أسبوعا، ثم أتى المقام فصلى عنده فقرأ بالمئين، ثم طاف أسبوعا، ثم أتى المقام فصلى عنده فقرأ بالمثاني، ثم طاف بالبيت أسبوعا ثم أتى المقام فصلى عنده فقرأ بقية القرآن  .وهذه كلها أسانيد صحيحة، ومن أغرب ما هاهنا: ما رواه أبو عبيد: حدثنا سعيد بن عفير، عن بكر بن مضر، أن سليم بن عتر التجيبي كان يختم القرآن في ليلة ثلاث مرات، ويجامع ثلاث مرات. قال: فلما مات قالت امرأته: رحمك الله، إن كنت لترضي ربك وترضي أهلك، قالوا: وكيف ذلك؟ قالت: كان يقوم من الليل فيختم القرآن، ثم يلم بأهله ثم يغتسل، ويعود فيقرأ حتى يختم ثم يلم بأهله، ثم يغتسل، ويعود فيقرأ حتى يختم، ثم يلم بأهله ثم يغتسل، ويخرج إلى صلاة الصبح  قلت: كان سليم بن عتر تابعيا جليلا ثقة نبيلا وكان قاضيا بمصر أيام معاوية وقاصها، ثم قال أبو حاتم: روى عن أبي الدرداء، وعنه ابن زحر، ثم قال: حدثني محمد بن عوف، عن أبي صالح كاتب الليث، حدثني حرملة بن عمران، عن كعب بن علقمة قال: كان سليم بن عتر من خير التابعين .وذكره ابن يونس في تاريخ مصر،وقد روى ابن أبي داود عن مجاهد أنه كان يختم القرآن فيما بين المغرب والعشاء.وعن منصور قال: كان علي الأزدي يختم القرآن فيما بين المغرب والعشاء كل ليلة من رمضان.وعن إبراهيم بن سعد قال: كان أبي يحتبي فما يحل حبوته حتى يختم القرآن،قلت: وروي عن منصور بن زاذان: أنه كان يختم فيما بين الظهر والعصر، ويختم أخرى فيما بين المغرب والعشاء، وكانوا يؤخرونها قليلا.وعن الإمام الشافعي، رحمه الله: أنه كان يختم في اليوم والليلة من شهر رمضان ختمتين، وفي غيره ختمة.وعن أبي عبد الله البخاري -صاحب الصحيح-: أنه كان يختم في الليلة ويومها من رمضان ختمة.ومن غريب هذا وبديعه ما ذكره الشيخ أبو عبد الرحمن السلمي الصوفي قال: سمعت الشيخ أبا عثمان المغربي يقول: كان ابن الكاتب يختم بالنهار أربع ختمات، وبالليل أربع ختمات.وهذا نادر جدا".

(ج:1،ص:85،84،دارطیبۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403102025

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں