بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام اور مقتدی کے درمیان رکعات کی تعداد میں اختلاف کی صورت میں کس کا قول معتبر ہوگا؟


سوال

امام تین رکعات تراویح پڑھے اور سب مقتدیوں کو یقین بھی ہو کہ تین ہی پڑھی گئی  ہیں اور امام بضد ہو کہ چار پڑھی گئ ہیں۔ تو قول کس کا معتبر ہوگا؟

جواب

امام اور مقتدیوں کے درمیان تعدادِ رکعات میں اختلاف ہونے کی درج ذیل ممکنہ صورتیں ہوسکتی ہیں :

۱۔  اگر امام کو اپنی بات کا پورا یقین ہے تو اس صورت میں امام کا قول معتبر ہوگا۔

۲۔  اگر امام کو اپنی بات کا پورا یقین تو نہیں ہے،  مگر مقتدیوں میں سے کوئی ایک بھی اس کا حامی ہے تو اس صورت میں بھی امام کا قول معتبر مانا جاۓ گا۔

۳۔ امام کو اپنی بات کا پورا یقین بھی نہیں ہو، اور مقتدی میں سے ہر ایک اس کی رائے کے مخالف ہو تو اس صورت میں مقتدیوں کا قول معتبر ہوگا، اور نماز دوبارہ لوٹائی جائے گی۔

"إذا شك الإمام فأخبرہ عدلان یأخذ بقولھما، رجل صلّی وحدہ أوصلی بقوم  فلما سلّم، أخبرہ رجل عدل، إنك صلیت الظھر ثلاث رکعات، قالوا: إن کان عند المصلي أنه صلی أربع رکعات لایلتفت إلی قول المخبر."

(الفتاوی الھندیة، الباب الثاني عشر في سجود السهو، (۱۳۱/۱) ط : رشيدية )

"ولواختلف الإمام والقوم فلو الإمام علی یقین لم یعد وإلا أعاد بقولھم."

(الدر المختار: کتاب السجود ، باب سجود سجود السھو، (۹٤/۲) ط: سعید )

"(قوله: ولو اختلف الإمام والقوم)  أی کل القوم، أما لو إختلف القوم، و قال بعضھم: صلی ثلاثاً وقال بعضھم: صلی أربعًا، والإمام مع أحدالفریقین یؤخذ بقول الامام  وإن کان معه واحد."

(الطحطاوی، ۳۱۷/۱)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201500

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں