ایک مسجد میں ایک امام اور ایک خادم و موذن ہیں، دونوں علماء ہیں، دونوں میں سے جو بھی چھٹی پر جائے وہ ایک دوسرے کی جگہ اپنے ساتھی کی ڈیوٹی بھی کرلیتا ہے،اب پوچھنا یہ تھا کہ کیا ایسا کرنے سے جو تنخواہ ملتی ہے وہ جائز ہے؟
صورتِ مسئولہ میں امام اور مؤذن کی تنخواہ کے جائز یا ناجائز ہونے کا تعلق ان کے اور مسجد انتظامیہ کے درمیان طے پانے والے معاہدے اور معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں عرف پر ہے، لہذا اگر کمیٹی کی اجازت ہو یا یہ طے ہو کہ جب آپ ہوں تو آپ نماز پڑھائیں، ہر نماز میں موجود ہونا لازم نہیں، یا یہ طے ہوا کہ جب خود نہ ہوں تو نائب مقرر کردیں اور وہ اپنا نائب مقرر کردیں یا کبھی اکا دکا نماز میں عذر کی وجہ سے امام کسی کو نائب بنادے، یا مؤذن کسی کو نائب بنادے تو اس صورت میں تنخواہ جائز ہوگی۔
البتہ اگر کوئی امام یا مؤذن اکثر غیر حاضر رہیں، اور کمیٹی کی اجازت بھی نہ ہو، نیز کوئی شرعی مجبوری نہ ہو تو غیر حاضریوں کے بقدر تنخواہ جائز نہیں ہو گی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"هذا وفي القنية من باب الإمامة إمام يترك الإمامة لزيارة أقربائه في الرساتيق أسبوعًا أو نحوه أو لمصيبة أو لاستراحة لا بأس به ومثله عفو في العادة والشرع اهـ وهذا مبني على القول بأن خروجه أقل من خمسة عشر يوما بلا عذر شرعي، لا يسقط معلومه، وقد ذكر في الأشباه في قاعدة العادة محكمة عبارة القنية هذه وحملها على أنه يسامح أسبوعا في كل شهر، و اعترضه بعض محشيه بأن قوله في كل شهر، ليس في عبارة القنية ما يدل عليه قلت: و الأظهر ما في آخر شرح منية المصلي للحلبي أن الظاهر أن المراد في كل سنة."
(4/419، کتاب الوقف ، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144203201291
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن