بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امام اگر غلطی سے بغیر وضو کے نماز پڑھالے، تو وہ کیا کرے؟


سوال

1۔اگر ایک آدمی غلطی سے بے وضو امامت شروع کردے اور تیسری رکعت میں یاد آجائے کہ  وضو نہیں ہے، تو نماز کو توڑ کر کسی اور سے نئے سِرے سے نماز پڑھائے یا اسی جگہ سےکسی اور کو باقی نماز پورا  کرنی چاہیے؟  اور اگر اس نے شرم وغیرہ کی وجہ سے کسی کو نہیں بتایا اور خود بعد میں اپنی نماز پڑھ لی، تودوسرے مقتدی جو ان کے پیچھے نماز پڑھ چکے ہیں، ان  کی نمازوں  کا کیا حکم ہے؟

2۔دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر ایک آدمی کے بہت سی نمازیں قضا ہوں اور اس کو ترتیب سے لوٹانا چاہ رہاہو، تو عشاء کی نماز کے ساتھ وتر بھی قضاء  کرے گا؟

جواب

1۔واضح رہے کہ امام اپنے مقتدیوں کی نماز کا ضامن اور ذمہ دار ہوتا ہے، یعنی مقتدیوں کی نماز کی صحت اور فساد   امام کی نمازکی صحت اور فساد پر موقوف ہے،  اگر امام کی نماز درست ہوگی تو مقتدیوں کی نماز بھی درست ہوگی اور اگر امام کی نماز فاسد  ہوگی، تو مقتدیوں کی نماز بھی فاسد ہوگی اوریہ بات بھی واضح رہے کہ نماز کے درست ہونے کے لیے  پاکی یعنی باوضو ہونا بھی  شرط ہے، بغیر  وضو کے اگر کسی نے نماز شروع کردی، تو اس کی نماز شروع ہی نہیں ہوگی، لہٰذا اگر کوئی شخص غلطی سے بغیر وضو کے امامت شروع کردے اور دورانِ نماز اس کو یاد آجائے، تو اس پر لازم ہے کہ نماز توڑ کر وضو کر کے دوبارہ نئے سِرے سے نماز پڑھائے، یاپھر کسی دوسرے شخص کو اپنی جگہ پر مقرر کرے جو شروع سے نماز پڑھائے اور اگر اس نے شرم کے مارے کسی کو نہیں بتایا اور نماز کو جاری رکھا، تو جتنے لوگوں نے اس کے پیچھے نماز پڑھی ہے، ان میں سے کسی کی نماز بھی درست نہیں ہوگی اور ان سب کی نمازوں کا یہ ذمہ دار ہوگا  اور گناہ گار ہوگا اور کل قیامت کے دن اللہ کے ہاں اس کا جواب دینا پڑے گا، لہٰذا اگر کسی کے ساتھ اس طرح کا معاملہ پیش آجائے، تو اسے چاہیے کہ آخرت کی رسوائی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دنیا کی شرم کو گوارہ کرلے۔

عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"وفي (شرح السنة) فيه: دليل على أنه إذا صلى بقوم محدثا أنه تصح صلاة المأمومين خلفه وعليه الإعادة قلت: هذا على مذهب الشافعي كما ذكرنا أن المؤتم عنده تبع للإمام في مجرد الموافقة لا في الصحة والفساد، وبه قال مالك وأحمد، وعندنا يتبع له مطلقا، يعني: في الصحة والفساد، وثمرة الخلاف تظهر في مسائل: منها: أن الإمام إذا ظهر محدثا أو جنبا لا يعيد المؤتم صلاته عندهم. ومنها: أنه يجوز اقتداء القائم بالمومى. ومنها: قراءة الإمام لا تنوب عن قراءة المقتدي. ومنها: أنه يجوز اقتداء المفترض بالمتنفل، وبمن يصلي فرضا آخر. ومنها: أن المقتدي يقول: سمع الله لمن حمده. وعندنا: الحكم بالعكس في كلها، ودليلنا ما رواه الحاكم مصححا عن سهل بن سعد: (الإمام ضامن) ، يعني: صلاتهم في ضمن صلاته صحة وفسادا."

(کتاب الصلاۃ، ج:5، ص:229، ط:دار إحياء التراث العربي)

فتح القدیر میں ہے:

"(ومن اقتدى بإمام ثم علم أن إمامه محدث أعاد) لقوله - عليه الصلاة والسلام - «من أم قوما ثم ظهر أنه كان محدثا أو جنبا أعاد صلاته وأعادوا»

(قوله قال - صلى الله عليه وسلم - «من أم قوما» إلخ) غريب والله أعلم. وروى محمد بن الحسن في كتاب الآثار: أخبرنا إبراهيم بن يزيد المكي عن عمرو بن دينار أن علي بن أبي طالب قال في الرجل يصلي بالقوم جنبا: قال يعيد ويعيدون. ورواه عبد الرزاق: حدثنا إبراهيم بن يزيد المكي عن عمرو بن دينار عن جعفر أن عليا - رضي الله عنه - صلى بالناس وهو جنب أو على غير وضوء، فأعاد وأمرهم أن يعيدوا. ومما يستدل به على المطلوب ما أخرجه الإمام أحمد بسند صحيح عنه - صلى الله عليه وسلم - قال «الإمام ضامن» وهو ما أشار إليه المصنف بقوله ونحن نعتبر معنى التضمن فإنه المراد بالضمان للاتفاق على نفي إرادة حقيقة الضمان، وأقل ما يقتضيه التضمن التساوي فيتضمن كل فعل مما على الإمام مثله، وغايته أن يفضل كالمتنفل خلف المفترض، وإذا كان كذلك فبطلان صلاة الإمام يقتضي بطلان صلاة المقتدي إذ لا يتضمن المعدوم الموجود، وهذا معنى قوله وذلك في الجواز والفسادويثبت المطلوب أيضا بالقياس على ما لو بان أنه صلى بغير إحرام لا تجوز صلاتهم إجماعا، والمصلي بلا طهارة لا إحرام له. والفرق بين ترك الركن والشرط لا أثر له، إذ لازمهما متحد وهو ظهور عدم صحة الشروع إذا ذكر."

كتاب الصلاة، ج:1، ص:375، ط:دار الفكر)

2۔ جب نمازوں کی قضاء کی جائے گی، تو عشاء کی نماز کے ساتھ وتر کی قضاء کرنا بھی ضروری ہے، کیوں کہ وترکی نماز واجب ہے اور واجب اگر اپنے وقت سے فوت ہوجائے، تو اس کی قضا بھی ضروری ہے، البتہ سنتوں کی قضا نہیں کی جائے گی۔

باقی قضا  نمازوں کو ادا کرنے  کا طریقہ یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد  جتنی نمازیں قضا ہوگئی ہیں  اُن کاحساب کرے، اگر قضا نمازوں کی تعداد معلوم ومتعین ہو تو ترتیب سے ان نمازوں کو قضا کرنا چاہیے، اور اگر متعین طور پر قضاشدہ نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہو اور  یقینی حساب بھی ممکن نہ ہو  تو غالب گمان کے مطابق ایک اندازا اور تخمینہ لگالے اورجتنے سالوں یامہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں احتیاطاً اس تعداد سے کچھ بڑھا کر اُسے کہیں لکھ کر رکھ لے، اس کے بعد فوت شدہ نمازیں قضا کرنا شروع کردے، جو فرض نماز فوت ہوئی ہو اس کو قضا کرتے وقت اتنی ہی رکعتیں قضا کرنی ہوں گی جتنی فرض یا واجب رکعتیں اس نماز میں ہیں، مثلاً فجر کی قضا دو رکعت، ظہر اور عصر کی چار، چار اور مغرب کی تین رکعتیں ہوں گی، عشاء کی نماز قضا کرتے ہوئے چار فرض اور تین وتر کی قضا کرنی ہوگی، قضا صرف فرض نمازوں اور وتر کی ہوتی ہے۔ 

قضا  نماز  متعینہ طور پر معلوم ہو تو اس کی نیت  میں ضروری ہے کہ اسے پڑھتے وقت اس کی مکمل تعیین کی جائے، یعنی فلاں دن کی فلاں نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، مثلاً  پچھلے جمعہ کے دن کی فجر کی نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، البتہ اگر متعینہ طور پر قضا نماز کا دن اور وقت معلوم نہ ہو نے کی وجہ سے اس طرح متعین کرنا مشکل ہو تو اس طرح بھی نیت کی جاسکتی ہے کہ مثلاً جتنی فجر کی نمازیں میں نے قضا  کی ہیں ان میں سے پہلی  فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں یا مثلاً جتنی ظہر  کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظہر  کی نماز ادا کر رہا ہوں، اسی طرح بقیہ نمازوں میں بھی نیت کریں، اسی طرح پہلی کے بجائے اگر آخری کی نیت کرے تو بھی درست ہے، مثلاً: یوں کہہ دیں: جتنی فجر کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے آخری فجر کی نماز ادا کررہاہوں۔

ایک دن کی تمام فوت شدہ نمازیں یا کئی دن کی فوت شدہ نمازیں ایک وقت میں پڑھ لیں، یہ بھی درست ہے۔

نیزایک آسان صورت فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی کی  یہ بھی ہے کہ ہر وقتی فرض نمازکے ساتھ اس وقت کی قضا نمازوں میں سے ایک پڑھ لیاکریں، (مثلاً: فجر کی وقتی فرض نماز ادا کرنے کے ساتھ قضا نمازوں میں سے فجر کی نماز بھی پڑھ لیں، ظہر کی وقتی نماز کے ساتھ ظہر کی ایک قضا نماز پڑھ لیا کریں)،  جتنے برس یاجتنے مہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں اتنے سال یامہینوں تک اداکرتے رہیں، جتنی قضا نمازیں پڑھتے جائیں اُنہیں لکھے ہوئے ریکارڈ میں سے کاٹتے جائیں، اِس سے ان شاء اللہ مہینہ میں ایک مہینہ کی اور سال میں ایک سال کی قضا نمازوں کی ادائیگی بڑی آسانی کے ساتھ  ہوجائے گی۔ ( زیادہ بھی ایک وقت میں پڑھ سکتے ہیں تا کہ جلد ذمہ پورا ہو جائے۔)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره.

(قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين؛ لأن فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلاً، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً، أو يقول: آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخراً، ولايضره عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت."

(کتاب الصلاۃ، ج:2، ص:76، ط:سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407102442

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں