سوال یہ تھا کہ امام کے پیچھے قراءت کرنے سے متعلق تفصیل بیان فرمادیں ۔
واضح رہے کہ جماعت سے نماز پڑھنے کی صورت میں امام کے پیچھے مقتدی کے لیے کسی قسم کی قراءت کرنا خواہ وہ سورۃ فاتحہ ہو یا کوئی اور سورت ہو، جائز نہیں، نیز اس حکم میں سری (ظہر، عصر) اور جہری (فجر، مغرب، عشاء) نمازوں میں کوئی فرق نہیں؛ کیوں کہ امام مقتدیوں کی نماز کا ضامن ہوتا ہے، مثلاً: اگر امام کا وضو نہ ہو تو تمام مقتدیوں کی نماز ادا نہیں ہوگی، اگرچہ تمام مقتدی باوضو ہوں۔ اسی طرح امام سے سہو ہوجائے تو تمام مقتدیوں پر سجدہ سہو لازم ہوتاہے، اگرچہ کسی مقتدی سے کوئی سہو نہ ہو۔ اسی طرح اگر تمام مقتدیوں سے بھی سجدہ سہو واجب کرنے والی غلطی ہوجائے، لیکن امام سے سہو نہ ہو تو مقتدیوں پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا، بلکہ امام کی نماز صحیح ہونے کی وجہ سے ان کی نماز بھی صحیح ہوجاتی ہے ۔ لہٰذا نماز خواہ سری ہو یا جہری امام کی قرأت تمام مقتدیوں کی طرف سے کافی ہوگی۔
قرآن مجید میں باری تعالٰی کا ارشاد ہے:
"وَإِذَا قُرِيَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَانْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ." (سورة الأعراف:204)
ترجمہ:"اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگایا کرو اور خاموش رہا کرو، امید ہے کہ تم پر رحمت ہو۔" (بیان القرآن)
سنن ابن ماجہ میں ہے:
"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، " إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا، وإذا قرأ فأنصتوا...الحديث".
"ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: امام کو اس لئے مقرر کیا گیا ہے کہ تم اس کی پیروی کرو، اس لئے جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو بالکل خاموش رہو ۔۔۔ الخ"
(سنن ابن ماجة، كتاب إقامة الصلاة، والسنة فيها، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا، رقم الحديث:846)
وفيه ايضاّ:
"عن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كان له إمام، فقراءة الإمام له قراءة»."
"ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں : جس شخص کا کوئی امام ہو تو امام کی قرأت اس کی بھی قرأت ہے۔"
(سنن ابن ماجة، كتاب إقامة الصلاة، والسنة فيها، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا، رقم الحديث:850)
الدر المختار میں ہے:
"(والمؤتم لايقرأ مطلقًا) ولا الفاتحة في السرية اتفاقًا، وما نسب لمحمد ضعيف كما بسطه الكمال (فإن قرأ كره تحريمًا) و تصح في الأصح. وفي درر البحار عن مبسوط خواهر زاده أنها تفسد و يكون فاسقًا، وهو مروي عن عدة من الصحابة فالمنع أحوط (بل يستمع) إذا جهر (وينصت) إذا أسر «لقول أبي هريرة - رضي الله عنه - كنا نقرأ خلف الإمام فنزل - {وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا} [الأعراف: 204]
(قوله: ولا الفاتحة) بالنصب معطوف على محذوف تقديره لا غير الفاتحة ولا الفاتحة، وقوله في السرية يعلم منه نفي القراءة في الجهرية بالأولى، والمراد التعريض، بخلاف الإمام الشافعي ويرد ما نسب لمحمد (قوله: اتفاقًا) أي بين أئمتنا الثلاثة. (قوله: و ما نسب لمحمد) أي من استحباب قراءة الفاتحة في السرية احتياطًا (قوله: كما بسطه الكمال) حاصله أن محمدا قال في كتابه الآثار: لا نرى القراءة خلف الإمام في شيء من الصلوات يجهر فيه أو يسر، ودعوى الاحتياط ممنوعة، بل الاحتياط ترك القراءة لأنه العمل بأقوى الدليلين. وقد روي الفساد بالقراءة عن عدة من الصحابة فأقواهما المنع (قوله: أنها تفسد) هذا مقابل الأصح (قوله: وهو) أي الفساد المفهوم من تفسد (قوله: مروي عن عدة من الصحابة) قال في الخزائن: وفي الكافي: ومنع المؤتم من القراءة مأثور عن ثمانين نفرا من كبار الصحابة، منهم المرتضى والعبادلة وقد دون أهل الحديث أساميهم (قوله: و ينصت إذا أسر) وكذا إذا جهر بالأولى. قال في البحر: وحاصل الآية أن المطلوب بها أمران الاستماع والسكوت، فيعمل بكل منهما، والأول يخص الجهرية، والثاني لا فيجري على إطلاقه فيجب السكوت عند القراءة مطلقًا اهـ".
(الدر المختار مع رد المحتار،کتاب الصلوۃ، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، 544/1، ط:سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144408100147
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن