بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کو لقمہ دینے کا حکم


سوال

میرا علماء کرام سے پہلا سوال یہ ہے کہ اگر امام سورہ فاتحہ میں غلطی کر دے تو کیا مقتدی اس کو لقمہ دے سکتا ہے دوسرا سوال یہ ہے کہ سورہ فاتحہ کے بعد جو واجب قرات کی جاتی ہے تین چھوٹی آیتیں یا بڑی ایک آیت اگر اس میں امام غلطی کرے تو کیا اس پر مقتدی لقمہ دے سکتا ہے اور واجب قرات کے بعد اگر غلطی کرے تو کیا حکم ہے وضاحت فرما کر ممنون فرمائیں۔

جواب

مقتدی کے لیے امام کو لقمہ دینے (غلطی بتانے)  میں جلدی کرنا مکروہ ہے ، اسی طرح امام کے لیے مقتدی کی راہ نمائی اور لقمہ کا انتظار کرنا بھی مکروہ ہے، ایسی صورت میں امام کو چاہیے کہ وہ دوسری جگہ سے ضروری قراء ت کر لے، یا کوئی اور سورت پڑھ  لے، یا اگر واجب  قراء ت کی مقدار پڑھ  لی ہو تو رکوع کرلے۔ لیکن ضرورت پڑنے پر لقمہ دینا جائز ہے ، یعنی  اگر امام نماز کے دوران قراءت کرتے ہوئے کوئی آیت بھول جائے اور کوشش کے باوجود صحیح نہ کرسکے، مثلاً پڑھتے پڑھتے اٹک گیا یا پس وپیش میں پڑگیا تو مقتدی کے لیے  امام کو لقمہ دینا جائز ہے، لیکن صرف غلطی بتانا مقصود ہو،  اپنی قراء ت مقصود نہ ہو ؛ کیوں کہ امام کے پیچھے تلاوت کرنا مکروہِ تحریمی ہےنیز مقتد ی صر ف اپنے امام کو لقمہ دے سکتا ہے خواہ فاتحہ ہو  یا غیر فاتحہ  ہو یعنی مطلقا قرائت میں غلطی کرنے پر،اور قرائت   واجب  ہو یا فرض ،لقمہ کے حکم میں سب برابر ہیں ۔

الفتاوى الهنديةمیں ہے:

"و الصحيح أن ينوي الفتح على إمامه دون القراءة، قالوا: هذا إذا أرتج عليه قبل أن يقرأ قدر ما تجوز به الصلاة، أو بعدما قرأ ولم يتحول إلى آية أخرى، وأما إذا قرأ أو تحول ففتح عليه تفسد صلاة الفاتح، والصحيح أنها لا تفسد صلاة الفاتح بكل حال ولا صلاة الإمام لو أخذ منه على الصحيح. هكذا في الكافي.

ويكره للمقتدي أن يفتح على إمامه من ساعته ؛ لجواز أن يتذكر من ساعته فيصير قارئاً خلف الإمام من غير حاجة. كذا في محيط السرخسي. ولا ينبغي للإمام أن يلجئهم إلى الفتح ؛ لأنه يلجئهم إلى القراءة خلفه وإنه مكروه، بل يركع إن قرأ قدر ما تجوز به الصلاة، وإلا ينتقل إلى آية أخرى. كذا في الكافي. وتفسير الإلجاء: أن يردد الآية أو يقف ساكتاً، كذا في النهاية."

(‌‌ کتاب الصلاۃ، الفصل الأول فيما يفسدها، ج:١، ص: ٩٩ ط:دار الفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وفتحه على غير إمامه) إلا إذا أراد التلاوة وكذا الأخذ، إلا إذا تذكر فتلا قبل تمام الفتح (‌بخلاف ‌فتحه على إمامه) فإنه لا يفسد (مطلقا) لفاتح وآخذ بكل حال(قوله بكل حال) أي سواء قرأ الإمام قدر ما تجوز به الصلاة أم لا، انتقل إلى آية أخرى أم لا تكرر الفتح أم لا، هو الأصح."

(باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها ،١/٦٢٢،ط: سعيد)

فقط اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102275

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں