ایک شخص نے نماز جنازہ پڑھائی اور اس کے پیروں کے ناخن بڑے تھے، اب اس کو یاد نہیں کہ جب اس نے جنازہ پڑھائی ، اس وقت اس کے ناخن کو 40 دن سے زیادہ ہوئے تھے یا 40 دن نہیں ہوئے تھے، یعنی دل میں بہت کھٹکا ہے۔ کیا نماز جنازہ کو دوبارہ دہرایا جائے قبر پر جاکر یا نماز جنازہ ہو گئی؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کی پڑھائی گئی نماز ِ جنازہ ادا ہوگئی ہے، دوبارہ دہرانے کی ضرورت نہیں۔تاہم یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ناخن کاٹنا اُن اعمال میں سے ہے ،جن کو فطرتِ سلیمہ کے تقاضوں میں شمار کیا گیا ہے، اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مونچھیں ترشوانے اور ناخن لینے اور بغل اور زیرِ ناف کی صفائی کے سلسلہ میں ہمارے لیے حد مقرر کر دی گئی ہے کہ چالیس روز سے زیادہ نہ چھوڑیں، لہذا ناخن نہ کاٹنے کی زیادہ سے زیادہ حد چالیس دن ہے ، چالیس دن تک ناخن نہ کاٹنا مکروہ تحریمی ہے، اگر چالیس دن تک ناخن نہ کاٹے جائیں تو صرف اسی عمل سے انسان ناپاک نہیں ہوگا، بلکہ یہ عمل مکروہِ تحریمی ہے اور گناہ کا باعث ہے۔
مسلم شریف میں ہے:
"عن أبي هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: « الفطرة خمس: الاختتان، والاستحداد، وقص الشارب، وتقليم الأظفار، ونتف الإبط."
(كتاب الطهارة، باب خصال الفطرة، ج:1، ص:153، رقم: 257، ط:دار المنهاج)
و فیہ ایضاً:
"قال أنس: وقت لنا في قص الشارب، وتقليم الأظفار، ونتف الإبط، وحلق العانة أن لا نترك أكثر من أربعين ليلة."
(كتاب الطهارة، باب خصال الفطرة، ج:1، ص:153، رقم: 258، ط:دار المنهاج)
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) يستحب (حلق عانته وتنظيف بدنه بالاغتسال في كل أسبوع مرة) والأفضل يوم الجمعة وجاز في كل خمسة عشرة وكره تركه وراء الأربعين، مجتبى.
(قوله: وكره تركه) أي تحريماً لقول المجتبى: ولا عذر فيما وراء الأربعين ويستحق الوعيد اهـ وفي أبي السعود عن شرح المشارق لابن ملك: روى مسلم عن أنس بن مالك: «وقت لنا في تقليم الأظفار وقص الشارب ونتف الإبط أن لانترك أكثر من أربعين ليلةً». وهو من المقدرات التي ليس للرأي فيها مدخل فيكون كالمرفوع اهـ"
(كتاب الحظر و الإباحة، ج:6، ص: 406-407،ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100053
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن