بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام مسجد کے لیے مسجد کی بجلی اور گیس کا استعمال کرنا


سوال

ایک سرکاری ادارے میں مسجد ہے ، اس کا سارا انتظام سرکار کے تحت ہے ، امام وغیرہ کو وظیفہ بھی سرکار کے تحت ملتا ہے ، اس ادارے میں ایک کالونی ہے اس میں ادارے کے لوگ رہائش پذیر ہیں اور ہاسٹل میں طلباء ہیں  اور کالونی اور ہاسٹل میں رہائش پذیر لوگ اس مسجدکے نمازی ہیں، مسجد سے متصل دو کمروں کا گھر امام کو دیا گیا ہے، جس کا کرایہ اما م کے وظیفہ سےادا ہوتا ہے اور سابقہ امام بھی اس میں رہائش پذیر تھے اور عدمِ ادائیگی کی وجہ سے بجلی منقطع کی گئی تھی تو طلباء و دیگر رہائش پذیر افراد نے اپنے صواب دید سے امام کے گھر کے لیے مسجد کے میٹر سے بجلی بحال کی اور گیس کے میٹر سے گیس بحال کی اور گیس کا میٹر بھی مشترک ہے، سابقہ دو اماموں کی بھی ادائیگی اس طرح تھی ، مسجد اور گھر دونوں کابل مسجد کے فنڈ  سے ادا ہوتا رہا،اور مسجد کا فنڈ ہر سال نئے داخل ہونے والے طلباء سے وصول کیا جاتا ہے ، کالونی والوں سے مسجد کے لیے کوئی فنڈ وصول نہیں کیا جاتا،  مذکورہ فنڈ کو مسجد کے کاموں بل وغیرہ ادا کرنے کے لیے کالج کی طرف سے ایک کمیٹی مقرر ہے ، اب موجودہ امام بھی اس طریقے سے گزشتہ تیرہ سالوں سے اس مکان میں رہتے ہیں ، کالج میں رہائش پذیر اور غیر رہائشی طلباء کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ ہر وقت ہر قسم کا تعاون کے لیے تیار رہتے ہیں،البتہ کالونی کے بعض افراد جائز نہ ہونے کا اعتراض کرتے ہیں ، اب سوال یہ ہے کہ کیا امام کے لیے مسجد کی بجلی اور گیس استعمال کرنا جائز ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ مسجد کا چندہ مسجد اور مسجد کے متعلقہ امور ہی میں صرف کرنے کا حکم ہے، امامت بھی چوں کہ متعلقاتِ مسجد ہی میں سے ہے ؛ اس لیے انتظامیہ کا مسجدکے چندہ کی رقم سےامام کے گھر کی  بجلی اور گیس  کے بل کی ادائیگی درست ہے،اور امامِ مسجد کے لیے بھی مسجد کی بجلی اور گیس کا استعمال جائز ہے۔اعتراض کرنے والوں کا اعتراض بے محل اور ناقابل التفات ہے۔

''البحرالرائق'' میں ہے:

''السادسة: في بيان من يقدم مع العمارة وهو المسمى في زماننا بالشعائر ولم أره إلا في الحاوي القدسي، قال: والذي يبتدأ به من ارتفاع الوقف عمارته شرط الواقف أو لا، ثم ما هو أقرب إلى العمارة وأعم للمصلحة، كالإمام للمسجد والمدرس للمدرسة يصرف إليهم إلى قدركفايتهم، ثمالسراجوالبساط كذلك إلى آخر المصالح .

(كتاب الوقف، الاستدانة لأجل العمارة في الوقف، ج: 5، ص: 227، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144411100392

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں