بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا کعبہ کے اندر دو رکعت میں پورا قرآنِ کریم ختم کرنے کا واقعہ


سوال

 میں نے شاید یوں پڑھا تھا:"الخيرات الحسان"میں  ہےکہ امام ِاعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نےپچپن(۵۵) حج کیے تھے،  جب آپ  رحمہ اللہ  آخری بار حج کے لیے تشریف لے گئے  تھےتو آپ کے لیے کعبہ کا دروازہ کھولا گیاتھا اور آپ نےکعبہ کے اندردو رکعت میں پوراقرآنِ کریم پڑھاتھا۔

کیا یہ واقعہ صحیح ہے؟ کیایہ   واقعہ ابنِ حجر مکی رحمہ اللہ نے لکھا ہے؟ اگر لکھا ہے تو اس کا حوالہ  بتادیں۔  ان کے علاوہ اور کس کس عالِم نے اس بات کو نقل کیا ہے؟اور کیا یہ بات صحیح ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ نے ایک پاؤں پر آدھا قرآنِ کریم  پڑھا اور دوسرے پاؤں پر آدھا  قرآنِ کریم پڑھا؟

جواب

۱۔سوال میں  آپ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے متعلق جس واقعہ کا ذکر کرکے اس کےبارے میں دریافت کیا ہے،یہ واقعہ "الخيرات الحسان في مناقب الإمام الأعظم أبي حنيفة النعمان"، "تفسير روح البيان"میں بحوالہ"فتاوى الظهيرية"،"الدر المختار"اور "التوضيح شرح مقدمة أبي الليث السمرقندي"میں مذکورہے۔"الخيرات الحسان"میں یہ واقعہ درج ذیل الفاظ میں مذکور ہے:

"ذكر بعضُ أهل المناقب: أنّه لما حجّ حجة الوادع أعطى السَّدنة نِصفَ ماله؛ لِيمكّنوه مِن الصّلاة داخلَ الكعبة، فقرأ نصفَ القرآن قائماً على رجلٍ، ثمّ نِصفَه الآخر على الأُخرى، وقال: يا ربِّ! عرفتُك حقَّ معرفتِك وما عبدتُك حقَّ العبادة، فهَبْ لي نُقصان الخدمة لِكمال المعرفة، فنُودي مِن زاوية البيت: عرفتَ فأحسنتَ، وأخلصتَ الخدمة، غَفرنا لك ولِمن كان على مذهبِك إلى قيام السّاعة".

(الخيرات الحسان، ص:76)

ترجمہ:

’’بعض اہلِ مناقب نے ذکر کیا ہے کہ  آپ (امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ ) نے جب  آخری حج کیا تو(کعبہ کے ) خادموں  کو اپنا آدھا مال دیا تاکہ وہ آپ کو کعبہ کے اندر نما ز  پر قدرت دے دیں (یعنی وہ آپ کو کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کی اجازت دے دیں)، چنانچہ(جب آپ کعبہ میں داخل ہوئے تو) آپ نے ایک پاؤں پر (کھڑے ہوکر)آدھا قرآنِ کریم  پڑھا، پھردوسرے پاؤں پر (کھڑے ہوکر)دوسرا آدھا(قرآنِ کریم)  پڑھا، اور (نماز سے فارغ ہونے کے بعد )دعاء کی:اے میرےرب!  (جتنا میری بساط میں تھا اس کے مطابق )میں نے آپ کی کماحقہ معرفت حاصل کرلی، لیکن میں آپ کی کما حقہ عبادت نہ کرسکا، کمالِ معرفت کی وجہ سے مجھے خدمت کے نقصان کا بدلہ  عطا کردیجیے،( اس کے جواب میں)بیت اللہ کے ایک کونے سے آواز آئی:تم نے( ہماری ) معرفت  حاصل کی اوربہت اچھی معرفت حاصل کی ،اور اخلاص  کے ساتھ خدمت کی ، ہم نے تمہاری اور   قیامت تک  جوتمہارے مذہب پر ہوگا اس کی مغفرت کردی‘‘۔

۲۔مذکورہ واقعہ کے الفاظ:"أعطى السَّدنة نِصفَ ماله لِيمكّنوه مِن الصّلاة" پر حضرت مولانا محمد عاشق الہی   البرنی رحمہ اللہ تعلیقاً لکھتے ہیں:

"هَذا يختلجُ في القلب؛ فإنّ ظاهره أنّه أعطاهم هذا المال رشوةً، وهو حرامٌ بعيدٌ عن مثل هذا الإمام، وقد اشتهر هو بالتقوى الذي لم يبلغه أفاضلُ الرجال وأكابرُ الأعلام، ثمّ رأيتُ العلّامة الحصكفي-رحمه الله تعالى- ذكر هذه القصّة، وقال: "وفي حجّته الأخيرة استأذن حَجَبة الكعبة بِالدخول ليلاً، فقام بين يدي العُمودين ... إلخ فذكر الا ستئذان، ولم يذكرْ إعطاءَ المال، وهو أحرى بالقُبول".

(المصدر السابق)

ترجمہ:

’’یہ بات دل میں کھٹکتی ہے؛ اس لیے  کہ اس سےیہ  ظاہر  ہوتا ہے کہ آپ رحمہ اللہ  نے یہ مال  انہیں رشوت کے طورپر دیا تھا،اور رشوت تو حرام ہے،یہ  ایسے امام(کی شان) سے بعید ہے(کہ  وہ رشوت جیسے حرام کام کا ارتکاب کریں)، جب کہ آپ  کا تقوی اس درجہ مشہور ہے کہ اس تک اصحاب ِ فضل اور چوٹی کے لوگوں تک کی رسائی نہیں۔بعد ازاں میں نے علامہ حصکفی رحمہ اللہ کی(کتاب "الدر المختار") دیکھی ، انہوں نے یہ قصہ ذکر کیا ہے، اور اس کے الفاظ یہ ہیں:"وفي حجّته الأخيرة استأذن حَجَبة الكعبة بِالدخول ليلاً، فقام بين يدي العُمودين ... إلخ"(آپ رحمہ اللہ  نےآخری حج کے موقع پر کعبہ کے دربانوں سے  رات کے وقت میں کعبہ کے اند رداخل ہونے کی اجازت  طلب کی ،(چنانچہ جب اجازت مل گئی  تو آپ کعبہ میں داخل ہوئے) اور دو ستونوں کے درمیان کھڑے ہوگئے۔۔۔الخ)، علامہ حصکفی رحمہ اللہ نے( اس واقعہ میں   کعبہ کے دربانوں سے  آپ رحمہ اللہ  کے )اجازت طلب کرنے کا ذکر کیا ہے،انہیں  مال دینے کا ذکر نہیں کیا، اور یہی  بات  قبول کیے جانے کے زیادہ مناسب ہے(کہ آپ نے دربانوں سے اجازت طلب  کی تھی، انہیں مال نہیں دیا تھا)‘‘۔

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110200267

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں