بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

علم سائنس طلبہ کو سمجھانے کے لیے جان دار کے نقشے بنانا


سوال

میں سائنس کا استاد ہو اور میں بچوں پر مختلف نقشے چارٹ پر بناتا ہوں، لیکن ہمارے مولوی صاحبان ہمیں اس سے روکتے ہیں؛ لہٰذا آپ صاحبان ہماری راہ نمائی فرمائیں!

جواب

احادیثِ مبارکہ میں جان دار کی تصویر کشی اور تصویر سازی کی ممانعت ہے اور اس پر وعیدات وارد ہوئی ہیں،  اور جان دار کی تصویر سے مراد یہ ہے کہ ایسی تصویر ہو جس سے اس کا جان دار ہونا معلوم ہوتا ہو  یا ایسی تصویر ہو کہ جس کی عبادت کی جاسکتی ہو، یہی وجہ ہے اگر تصویر کا سر کا حصہ چہرے سمیت  کاٹ دیا جائے تو نچلے دھڑ کا حصہ شرعاً حرام تصویر کے حکم میں نہیں ہوگا، یا سر کو مٹادیا جائے جس سے چہرے کے نقوش بالکل ختم ہوجائیں تو وہ تصویر کے حکم سے نکل جائے گا، البتہ اگر نچلا دھڑ نہ ہو اور صرف اوپر کا حصہ ہو یا صرف مکمل چہرہ تب بھی یہ حرام تصویر میں داخل ہوگا۔

اس تفصیل کے بعد  آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ شعبہ سائنس میں بچوں کی تعلیم کے لیے اگر جسم کے اعضاء کی الگ الگ تصویر بنائی جائے مثلاً: ہاتھ کی، پاؤں کی، صرف آنکھ، یا صرف ناک وغیرہ کی یا ایسی تصویر ہو جس میں سر کے علاوہ نچلا حصہ بنایا جائے یہ بھی جائز ہے،  البتہ  مکمل جان دار کی تصویر بنانا یا مکمل چہرہ بنانا جس سے جان دار کی حکایات ہوتی ہو  جائز نہیں ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (13 / 244):

"وفي شرح السنة: فيه دليل على أن الصورة إذا غيرت هيئتها بأن قطعت رأسها أو حلت أوصالها حتى لم يبق منها إلا الأثر على شبه الصور فلا بأس به، وعلى أن موضع التصوير إذ نقض حتى تنقطع أوصاله جاز استعماله. قلت: وفيه إشارة لطيفة إلى جواز تصوير نحو الأشجار مما لا حياة فيه، كما ذهب إليه الجمهور وإن كان قد يفرق بين ما يصير ومآلا وانتهاء وبين ما يقصد تصويره ابتداء. والله أعلم".

حاشية ابن عابدين - (1 / 648):

"(قوله: أو مقطوعة الرأس ) أي سواء كان من الأصل أو كان لها رأس ومحي وسواء كان القطع بخيط خيط على جميع الرأس حتى لم يبق له أثر أو يطليه بمغرة أو بنحته أو بغسله؛ لأنها لاتعبد بدون الرأس عادةً، وأما قطع الرأس عن الجسد بخيط مع بقاء الرأس على حاله فلاينفي الكراهة؛ لأن من الطيور ما هو مطوق فلايتحقق القطع بذلك، وقيد بالرأس؛ لأنه لا اعتبار بإزالة الحاجبين أو العينين؛ لأنها تعبد بدونها، وكذا لا اعتبار بقطع اليدين أو الرجلين، بحر. 
 (قوله: أو ممحوة عضو الخ ) تعميم بعد تخصيص وهل مثل ذلك ما لو كانت مثقوبةً البطن مثلاً، والظاهر أنه لو كان الثقب كبيراً يظهر به نقصها فنعم وإلا فلا، كما لو كان الثقب لوضع عصا تمسك بها كمثل صور لخيال التي يلعب بها؛ لأنها تبقى معه صورة تامة، تأمل. (قوله: أو لغير ذي روح ) لقول ابن عباس للسائل: فإن كنت لا بد فاعلاً فاصنع الشجر وما لا نفس له. رواه الشيخان. ولا فرق في الشجر بين المثمر وغيره خلافاً لمجاهد، بحر".

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200788

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں