بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

الا ابلیس کا ترجمہ الا بدعتی کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص قرآن کے ترجمے میں اپنی طرف سے کوئی مطلب بیان کرے مثلا :الا ابلیس کے ترجمے میں کہے: الا بدعتی تو کیا یہ تحریفِ قرآن کے حکم میں آئے گا؟اگر یہ تحریف کے حکم میں ہے تو ایسے شخص کا کیا حکم ہے اور اس سے ترجمہ وتفسیر پڑھنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

تحریف قرآن کی مختلف صورتیں ہیں جن میں سے ایک تحریفِ معنوی ہے، آپ کے سوال کا تعلق اسی قسم کے ساتھ ہے، سو عرض ہے کہ علمائے تفسیر کے ہاں تحریفِ معنوی سے مراد یہ ہوتا ہے کہ لفظ سے کوئی ایسا معنی مراد لیا جائے جو اس کے ظاہری معنی سے مربوط نہ ہو اور اس لفظ کی مشہور تفسیر کے خلاف ہو۔اب پیشِ نظر صورت میں اگر الا ابلیس کی تفسیر الا بدعتی کرتے ہوئے قائل کی مراد یہ ہے کہ آیت میں ابلیس کا معنی ومصداق بدعتی ہے اور یہی یہاں مراد ہے تو یہ تحریفِ معنوی شمار ہوگی، جو شرعا حرام ہے۔ البتہ اگر آیت کی تفسیر مقصود نہ ہو بلکہ مخصوص اوصاف میں بدعتی کو ابلیس سے تشبیہ دی گئی ہو تو اس صورت کو قرآنی آیت کی ایک نامناسب توجیہ اور غلط استعمال تو ضرور کہا جائے گا، لیکن تحریف نہیں کہا جا سکتا، بہرکیف قرآن کریم کے ترجمہ وتفسیر کے دوران یوں کہنا قطعا مناسب نہیں۔اس طرح کے ناپختہ علم کے حامل شخص سے ترجمہ وتفسیر پڑھنا بھی درست نہیں۔ واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143509200055

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں