بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

الیکشن کے دنوں میں مسجد کی تعمیرات میں کسی سیاسی نمائندے کی طرف سے مسجد انتظامیہ سے ووٹ کا مطالبہ کیے بغیر رقم خرچ کرنے کا حکم


سوال

ایک سیاسی نمائندہ الیکشن  کے سلسلے میں ہمارے علاقے میں موجود ہے،تین دن قبل اُن کا جلسہ تھا،جب وہ جلسہ گاہ کی طرف جارہےتھےتوراستے میں ایک جامع مسجد ہے جوکہ 2017ءسےزیرِتعمیر ہے،مسجد کےخطیب صاحب نےمسجد کے سامنے اس نمائندےسےملاقات کی اورزیرِِتعمیر مسجد کاوزٹ کروایا،اُس نمائندے نے مسجد کے لیے پانچ لاکھ روپے کیش عنایت فرمائے۔

اب علاقےکےکچھ دین دارلوگ کہتے ہیں کہ الیکشن کے موقع پر کسی بھی قسم کی رقم لینا اوردینارشوت کےزمرے میں آتا ہے،اور رشوت لینااور دیناقطعاًحرام ہے،بعض  دین دارلوگ کہتے ہیں کہ اس رقم کو مسجد کے تعمیراتی کاموں میں استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

1۔اب پوچھنا یہ ہے کہ  کیاالیکشن کے موقع پر کسی نمائندے سے رقم لینا حرام ہے،جب کہ وہ نمائندہ ووٹ کامطالبہ بھی نہیں کرتا ،اورنہ رقم لینے والا نمائندے کو ووٹ دینے کاوعدہ کرتا ہے۔

2۔  کیا اس رقم کو مسجد کی تعمیرات میں استعمال کرنا درست ہے؟

3۔ اور اگر کسی نےاس قسم کی رقم لی ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

1۔ الیکشن کے موقع پر کسی ایسے نمائندے سے رقم لیناکہ وہ نہ  ووٹ لینے کا مطالبہ کرتا ہو ، اور  نہ ہی دینے والا اس کے ساتھ ووٹ دینے کا معاہدہ کرتا ہو،  بلکہ وہ نمائندہ اپنے طور پر یہ رقم صدقہ کی نیت سے دیتا ہو ،  تو  ایسی رقم لینا  شرعًا جائز ہے ، اس میں  کوئی قباحت نہیں ہے، البتہ اگر اس نےیہ رقم  ووٹ لینے کے عوض دی ہو تو پھر اس رقم کا لینا، اور خیر کے کاموں میں استعمال کرنا ناجائز اور حرام ہے، بلکہ یہ رقم دوبارہ اسی شخص کو واپس کرنا ضروری ہوگا۔

2۔لہذا موجودہ رقم کو مسجد کی تعمیرات  وغیرہ میں استعمال  کرنا درست ہے۔

3۔ اور جس نے اس قسم کی رقم  لی ہو  اس کے لیے یہ رقم استعمال کرناجائز اور مباح ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"رجل أعطى درهما في عمارة المسجد أو نفقة المسجد أو مصالح المسجد صح؛ لأنه وإن كان لا يمكن تصحيحه تمليكا بالهبة للمسجد فإثبات الملك للمسجد على هذا الوجه صحيح فيتم بالقبض، كذا في الواقعات الحسامية."

(كتاب الوقف، الفصل الثاني في الوقف وتصرف القيم وغيره في مال الوقف عليه، 2/ 460، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌وفي ‌المصباح ‌الرشوة بالكسر ما يعطيه الشخص الحاكم وغيره ليحكم له أو يحمله على ما يريد."

(کتاب القضاء،مطلب فی الکلام علی الرشوۃ، 5/ 362، ط: سعيد)

وفيه أيضا:

وفي الفتح: ثم الرشوة أربعة أقسام: منها ما هو حرام على الآخذ والمعطي وهو الرشوة على تقليد القضاء والإمارة. الثاني: ارتشاء القاضي ليحكم وهو كذلك ولو القضاء بحق؛ لأنه واجب عليه ... الخ."

(كتاب القضاء، مطلب في الكلام على الرشوة والهدية، 5/ 362، ط: سعيد)

فتح القدیر میں ہے :

"‌بخلاف ‌الشهادة ‌فإنها ‌فرض يجب على الشاهد أداؤها فلا يجوز فيها التعاوض أصلا."

(کتاب الوکالۃ، ج: 8، ص: 3، ط: دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے: 

"‌وعلى ‌هذا ‌قالوا ‌لو ‌مات ‌الرجل ‌وكسبه ‌من ‌بيع ‌الباذق ‌أو ‌الظلم ‌أو ‌أخذ ‌الرشوة ‌يتورع ‌الورثة، ولا يأخذون منه شيئا وهو أولى بهم ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، 6/ 385، ط: سعيد)

کفایت المفتی میں ہے :

"ووٹ کی قیمت لینا  اور اس کو مسجد میں صرف کرنا جائز نہیں "

سوال:زید نے ووٹ دینے کے عوض  پیسہ لینا جائز کہا ہے ،اور اس سے مسجد کی مرمت کرنا بھی جائز بتایا ہے ،رشوت کو جائز سمجھنا کفر ہے یا نہیں ؟

جواب:ووٹ کی قیمت وصول کرنا جائز نہیں ،اور ایسا روپیہ مسجد میں نہیں لگ سکتا ۔

(کتاب السیاسیات،ج:9،ص:354،دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101477

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں