بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

علاقے کی حفاظت کے لیے علاقے میں گرین مارکیٹنگ (جنگلات کے سرسبز درخت کاٹ کر خرید و فروخت) کرنے والوں اور مویشی چرانے میں مقرر شدہ حدود سے تجاوز کرنے والوں سے مالی جرمانہ لے کر قومی مفاد میں خرچ کرنے کا حکم


سوال

ایک علاقہ میں علاقے کے تحفظ کے لیے کمیٹی بنائی گئی ہے،کمیٹی کا کام جنگلات کی حفاظت کرنا ہے، یعنی وہ کمیٹی گرین مارکیٹنگ (جنگلات کے سرسبز درخت کاٹنا اور ان کی خرید و فروخت کرنا) نہیں ہونے دے گی، اسی طرح مویشی چَرانے کے لیے بھی حدود مقرر ہیں، علاقے کے مکین صرف ان متعین شدہ حدود کے اندر ہی اپنی بکریاں چرائیں گے، کمیٹی والوں کو علاقے کے لوگوں نے مکمل اختیارات دیے ہیں، جو بھی مسائل پیش آئیں گے، بجلی کا بِل، امام و مؤذن کی تنخواہ، اسی طرح دیگر مسائل کا حل کمیٹی والوں کی ذمہ داری ہے،  کمیٹی والے گرین مارکیٹنگ کرنے والوں کے خلاف اور مویشی چرانے میں مقرر شدہ حدود سے تجاوز کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرتی ہے اور ان سے جرمانہ وصول کرتی ہے، کیوں کہ جرمانہ وصول کیے بغیر علاقے کا تحفظ ناممکن ہے، کمیٹی والے تین سال میں رپورٹ عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں، جرمانے کی مد میں وصول شدہ رقم کو قومی مفاد میں استعمال کرتے ہیں،کمیٹی والے فی سبیل اللہ کام کرتے ہیں، وصول شدہ رقم اپنے ذاتی مفاد میں استعمال نہیں کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ علاقے کے تحفظ کے لیے خلاف ورزی کرنے والوں سے جرمانہ وصول کرنا اور اسے قومی مفاد میں استعمال کرنا شرعا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ کسی سے مالی جرمانہ وصول کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ کسی بھی مسلمان شخص کا مال اس کی دلی رضامندی و خوشی کے بغیر (لینا) حلال نہیں ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں کمیٹی والوں کا  گرین مارکیٹنگ (جنگلات کے سرسبز درخت کاٹ کر خرید و فروخت) کرنے والوں  اور مویشی چرانے میں مقرر شدہ حدود سے تجاوز کرنے والوں سے مالی جرمانہ لینا اور اسے قومی مفاد میں استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں ہے،کمیٹی والوں کو چاہیے کہ علاقے کے تحفظ کے لیے شریعت اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مالی جرمانے کے علاوہ کوئی دوسری تادیبی سزا مقرر کریں۔کمیٹی والوں نے اب تک جتنے لوگوں سے مالی جرمانے کی مد میں جتنی بھی رقم لی ہے وہ ساری رقم ان سب لوگوں کو واپس کرنا لازم ہے، اس رقم کو مالک کی اجازت کے بغیر قومی مفاد میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے، استعمال شدہ رقم یا تو مالکان سے معاف کرالی جائے یا کسی بھی طرح سے ان کو واپس کردی جائے۔

حدیث شریف میں ہے:

"أخبرنا أبو بكر بن الحارث الفقيه، أنبأ أبو محمد بن حيان، ثنا حسن بن هارون بن سليمان، ثنا عبد الأعلى بن حماد، ثنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لايحلّ مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه."

(السنن الكبرىللبيهقي، باب من غصب لوحا فأدخله في سفينة أو بنى عليه جدارًا، 166/6، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأفاد في البزازية: أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدةً؛ لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي ... وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال."

(کتاب الحدود، باب التعزیر،61/4،ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے :

"وفي شرح الآثار ‌التعزير ‌بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ.  والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال، وأما التعزير بالشتم فلم أره إلا في المجتبى قال وفي شرح أبي اليسر التعزير بالشتم مشروع ولكن بعد أن لا يكون قاذفا، وصرح السرخسي بأنه ليس في التعزير شيء مقدر بل هو مفوض إلى رأي القاضي لأن المقصود منه الزجر وأحوال الناس مختلفة فيه."

(کتاب الحدود، فصل فی التعزیز،44/5، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144506102127

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں