بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

علاج کی غرض سے مشت زنی کا حکم


سوال

 مجھے خصیوں کی بیماری ہے خصیوں کی نالیاں سوج گئی ہیں، ڈاکٹر کو چیک کروایا ہے، انہوں نے منی کا ٹیسٹ لکھا ہے ۔ میری شادی نہیں ہوئی ہے اس میں مشت زنی کر کے منی کا سیمپل لینا ہوتا ہے کیا اس صورت میں ہاتھ سے منی نکالنا جائز ہے رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مشت زنی کرنا سخت گناہ ہے اور احادیث میں ایسے شخص پر لعنت وارد ہوئی ہے لہذا اس فعل سے مکمل پرہیز اور اجتناب ضروری ہے البتہ مذکورہ صورت میں  علاج کی ضرورت کی وجہ سے سائل کو مشت زنی کے ذریعہ منی نکالنے کی گنجائش ہوگی، البتہ اس کے بعد قطعاً یہ فعل نہ کیا جائے۔

الأشباه والنظائر  میں ہے:

"الأولى: الضرورات تبيح المحظورات،ومن ثم جاز أكل الميتة عند المخمصة، وإساغة اللقمة بالخمر، والتلفظ بكلمة الكفر للإكراه وكذا إتلاف المال، وأخذ مال الممتنع الأداء من الدين بغير إذنه ودفع الصائل، ولو أدى إلى قتله..... ‌‌الثانية: ما أبيح للضرورة يقدر بقدرها ولذا قال في أيمان الظهيرية: إن اليمين الكاذبة لا تباح للضرورة وإنما يباح التعريض، (انتهى) .يعني؛ لاندفاعها بالتعريض،ومن فروعه: المضطر لا يأكل من الميتة إلا قدر سد الرمق."

(الفن  الاول، القاعدۃ الخامسۃ ص نمبر ۷۳،دار الکتب العلمیۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"وكذا الاستمناء بالكف وإن كره تحريما لحديث «ناكح اليد ملعون» ولو خاف الزنى يرجى أن لا وبال عليه

(قوله: وكذا الاستمناء بالكف) أي في كونه لا يفسد لكن هذا إذا لم ينزل أما إذا أنزل فعليه القضاء كما سيصرح به وهو المختار كما يأتي لكن المتبادر من كلامه الإنزال بقرينة ما بعده فيكون على خلاف المختار (قوله: ولو خاف الزنى إلخ) الظاهر أنه غير قيد بل لو تعين الخلاص من الزنى به وجب؛ لأنه أخف وعبارة الفتح فإن غلبته الشهوة ففعل إرادة تسكينها به فالرجاء أن لا يعاقب اهـ زاد في معراج الدراية وعن أحمد والشافعي في القديم الترخص فيه وفي الجديد يحرم ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه فلا ينافي قول المعراج يجوز تأمل وفي السراج إن أراد بذلك تسكين الشهوة المفرطة الشاغلة للقلب وكان عزبا لا زوجة له ولا أمة أو كان إلا أنه لا يقدر على الوصول إليها لعذر قال أبو الليث أرجو أن لا وبال عليه وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة فهو آثم اهـ"

(کتاب الصوم ، باب ما یفسد الصوم  و ما لا یفسد ج نمبر ۲ ص نمبر  ۳۹۹، ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403102014

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں