بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

علاج کے لیے دی ہوئی رقم کا حکم


سوال

چند سال پہلے میرے بھائی نے والدہ سے تقریباً اٹھارہ لاکھ روپے اپنے علاج کے لیے، لیے تھے،لیکن اللہ کے فضل سے ان کا علاج کافی کم میں ہی ہوگیا تھا اور وہ صحت یاب ہوگئے ، اور امی کے انتقال تک انہوں نے وہ رقم واپس نہیں کی، آپ حضرات ہماری راہ نمائی فرمائیں کہ وراثت کی تقسیم میں اس اٹھارہ لاکھ کی کیا حیثیت ہوگی؟ یہ رقم علاج کی ہی غرض سے لی تھی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی والدہ نے سائل کے بھائی کو جو رقم علاج کی غرض سے دی تھی، اگر یہ رقم بطورِ قرض کے دی تھی تاکہ صحت حاصل ہونے پر وہ رقم واپس لے لی جائے گی تو یہ رقم سائل کی والدہ کا ترکہ ہے جو ان کے شرعی ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم ہوگی، اور اگر یہ رقم دیتے وقت قرض کی  یا واپس لینے کی کوئی بات نہیں ہوئی تھی، تو سائل کی والدہ کی طرف سے سائل کے بھائی کو اس رقم کا دینا محض تبرع اور احسان تھا، جس کےبقایا کی واپسی سائل کے بھائی کے ذمہ لازم نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"‌‌فصل في ‌القرض (هو) لغة: ما تعطيه لتتقاضاه، وشرعا: ما تعطيه من مثلي لتتقاضاه وهو أخصر من قوله (عقد مخصوص) أي بلفظ ‌القرض ونحوه (يرد على دفع مال) بمنزلة الجنس (مثلي) خرج القيمي (لآخر ليرد مثله) خرج نحو وديعة وهبة."

(كتاب البيوع، فصل في القرض، ج: 5، ص: 161، ط: دار الفكر بيروت)

وفيه أيضاً:

"‌‌كتاب الهبة... (هي) لغة: التفضل على الغير ولو غير مال. وشرعا: (تمليك العين مجانا) أي بلا عوض لا أن عدم العوض شرط فيه... (وسببها إرادة الخير للواهب) دنيوي كعوض ومحبة وحسن ثناء، وأخروي: قال الإمام أبو منصور يجب على المؤمن أن يعلم ولده الجود والإحسان كما يجب عليه أن يعلمه التوحيد والإيمان؛ إذ حب الدنيا رأس كل خطيئة نهاية مندوبة وقبولها سنة قال - صلى الله عليه وسلم - «تهادوا تحابوا»."

(كتاب الهبة، ج: 5، ص: 687، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144311101439

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں