بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

علاج کے لیے تعویذ کا استعمال / ابلیس فرعون اور قارون وغیرہ کے ناموں پر مشتمل تعویذ کا حکم


سوال

 تعویذ،گنڈّے کا پہنناعلاج کے لیے جائز ہے یا نہیں؟  ایک عامل صاحب شیاطین و آسیب ہٹانے کے لیے جو نقش دے رہے ہیں اُن پر لکھا ہے: ابلیس - نمرود- شداد- فرعون-وغیرہ، انہوں نے کہا روز ایک نقش اپنے پورے جسم پر مل کر جلاکر راکھ کرلیں ،  یہ درست جائز ہے ؟

جواب

عملیات اور تعویذات  بھی دیگر  علاج ومعالجہ کی طرح  علاج کی ایک قسم ہے، اس کے ذریعے علاج کرنا  اور کروانا  اور تعویذ استعمال کرنا چند شرائط کے ساتھ جائز ہے: 

(۱)  ان کا معنی  ومفہوم معلوم ہو،  (۲) ان میں  کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو، (۳)  ان کے مؤثر بالذات ہونے   کا اعتقاد نہ ہو ،  (۴)  عملیات کرنے ولا علاج سے واقف اور  ماہر ہو، فریب نہ کرتا ہو۔ (۴) کسی بھی غیر شرعی امر کا ارتکاب نہ کرنا پڑتا ہو۔

لہذا ایسے تعویذ اور عملیات جو آیاتِ قرآنیہ، ادعیہ ماثورہ یا کلمات صحیحہ پر مشتمل ہوں  ان کو لکھنا،  استعمال کرنا اور ان سے علاج کرنا شرعاً درست ہے، اور جن تعویذوں میں کلماتِ  شرکیہ یا  کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم قسم کے منتر  لکھے جائیں یا ا نہیں مؤثرِ حقیقی  سمجھا جائے ان کا استعمال   شرعاً جائز نہیں ہے۔

جیساکہ  فتاوی شامی میں ہے:

"[فرع] في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير العربية.

(قوله: التميمة المكروهة) أقول: الذي رأيته في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير القرآن، وقيل: هي الخرزة التي تعلقها الجاهلية اهـ فلتراجع نسخة أخرى. وفي المغرب: وبعضهم يتوهم أن المعاذات هي التمائم، وليس كذلك! إنما التميمة الخرزة، ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال: رقاه الراقي رقياً ورقيةً: إذا عوذه ونفث في عوذته، قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو، ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من  الدعوات فلا بأس به اهـ قال الزيلعي: ثم الرتيمة قد تشتبه بالتميمة على بعض الناس: وهي خيط كان يربط في العنق أو في اليد في الجاهلية لدفع المضرة عن أنفسهم على زعمهم، وهو منهي عنه، وذكر في حدود الإيمان أنه كفر اهـ. وفي الشلبي عن ابن الأثير: التمائم جمع تميمة، وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم يتقون بها العين في زعمهم، فأبطلها الإسلام، والحديث الآخر: «من علق تميمة فلا أتم الله له»؛ لأنهم يعتقدون أنه تمام الدواء والشفاء، بل جعلوها شركاء؛ لأنهم أرادوا بها دفع المقادير المكتوبة عليهم وطلبوا دفع الأذى من غير الله تعالى الذي هو دافعه اهـ ط وفي المجتبى: اختلف في الاستشفاء بالقرآن بأن يقرأ على المريض أو الملدوغ الفاتحة، أو يكتب في ورق ويعلق عليه أو في طست ويغسل ويسقى.وعن «النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يعوذ نفسه». قال - رضي الله عنه -: وعلى الجواز عمل الناس اليوم، وبه وردت الآثار".

(6 / 363، کتاب الحظر والاباحة، ط: سعید)

باقی  ابلیس - نمرود- شداد- فرعون کے ناموں   میں سے   جو نام قرآن مجید میں مستعمل ہیں، وہ الفاظ   قرآن مجید کے نظم میں آنے کے وقت دیگر قرآن کے الفاظ  کی طرح حکم رکھتے ہیں، لیکن مستقل  ان ناموں میں کوئی تبرّک نہیں ہے، اور   یہ سب نام چوں کہ  شیاطین  اور کفار  کے سرغنوں کے ہیں،  اس لیے ان کے چیلوں کو سرکشی سے باز رکھنے  اور ان کے  شریر اثرات ختم کرنے کے لیے    اس طرح کے مخصوص  نقش کو جلایا جاتا ہے، یہ تجربات کی بنیاد پر ہوتا ہے،  لہذا  اگر یہی مقصود ہو   اور  کوئی  مسلمان ، دین دار ،ماہر فن، عامل   اس طرح کا تعویذ لکھ کر دے تو اس کو جلانا جائز ہوگا۔ جیساکہ  حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے عملیات اور تعویذات کے  افادات پر مشتمل  کتاب ” عملیات و تعویذات اور اس  کے شرعی احکام“ ان سے جادو اور آسیب کے دور کرنے کے لیے یہ نقش منقول ہیں، جس کے آخر میں یہ الفاظ درج ہیں:

"فرعون، قارون، ھامان، شداد، نمرود، ابلیس

عليه اللعنة واتباع ايشان اگرنه گريزند سوخته شوند"

(ص: 264، باب:16،  مفيد اور آسان  اهم عمليات وتعويذات، ط: ادارہ تالیفات اشرفیہ )

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144309101185

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں