بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایکسیڈنٹ میں وفات پانے والا شہید ہے یا نہیں؟


سوال

میرا 18 سالہ غیرشادی شدہ، جوان، اکلوتا بیٹا جو قربانی کے  لیے عید سے 4 روز قبل دو بکرے خرید کر لایا اور انہیں بسکٹ کھلا کر موٹر سائیکل پر جا رہا تھا جسے ٹریکٹر ٹرالی نے روڈ پر کچل دیا اور وہ موقعہ پر اللہ کو پیارا ہوگیا ۔ کیا میرا یہ اکلوتا بیٹا شہادت کے کسی زمرے میں آتا ہے؟ اور کیا میرے بیٹے کا قبر میں حساب ہوگا؟ اور کیا میرا بیٹا بروز قیامت میرے  لیے ذریعہ نجات بن سکے گا؟

جواب

ایکسیڈنٹ کی حادثاتی موت   بھی شہادت کی موت  ہے، تاہم یہ شہادت آخرت کے اعتبار سے ہے، یعنی آخرت میں ایسا شخص   اجر وثواب کے اعتبار سے  شہیدوں میں شمار کیا جائے گا ،  البتہ  دنیا میں عام  میت کی طرح اس کو غسل وکفن دیا جائے گا،  لہذا صورتِ  مسئولہ میں ایکسیڈنٹ کے حادثے میں فوت ہونےوالا  سائل کا بیٹا آخرت کے اجر وثواب کے اعتبار سے شہید کے حکم میں ہے، یعنی: اس کو شہیدوں کا اجر وثواب ملے گا۔  البتہ جہاد کے معرکہ میں شہید ہونے والے شہداء کے  لیے یہ فضلیت ہے  کہ ان کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں سوائے قرض کے،  لیکن شہید حکمی کے  لیے ایسی کوئی صراحت نہیں،تاہم اللہ رب العزت سے امید رکھنی  چاہیے کہ  مظلومیت کی اس موت سے اللہ تعالی مرحوم کی  لغزشوں سے درگزر کا معاملہ فرمائیں گے ( ان شاء اللہ )   

باقی سائل اگر اس عظیم حادثے پر صبر کر لیتے ہیں تو  ان شاء  اللہ تعالي یہ سائل کے  لیے جنت میں داخل ہونے کا سبب بنے گا ؛  کیوں کہ صبر کا بدلہ جنت ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وكذلك لو انهزم المسلمون فوطئت دابة مسلم مسلما وصاحبها عليها أو سائق أو قائد غسل".

(الفتاوى الهندية: كتاب الصلاة، الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل السابع في الشهيد (1/ 168)، ط. رشيديه)

شرح البخاری لابن بطال میں ہے:

"(قال الله: إذا ابتليت عبدى بحبيبتيه، فصبر، عوّضته منهما الجنة)، يريد عينيه. هذا الحديث أيضا حجة فى أن الصبر على البلاء ثوابه الجنة".

(شرح البخاري لابن بطال: باب فضل من ذهب بصره (9/ 377)، ط. مكتبة الرشد - السعودية، الرياض، الطبعة  الثانية: 1423هـ =2003م)

المفاتیح شرح المصابیح میں ہے:

"عن أبي قتادة - رضي الله عنه - قال: قال رجل: يا رسول الله! أرأيت إن قتلت في سبيل الله صابرا محتسبا مقبلا غير مدبر يكفر الله عني خطاياي؟ فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "نعم" فلما أدبر ناداه، فقال: "نعم إلا الدين، كذلك قال جبريل".

قوله: "محتسبا"؛ أي: لطمع ثواب الله لا للرياء. قوله: "إلا الدين": هذا يدل على أن الشهيد يغفر له الذنوب الصغائر والكبائر، إلا الدين، والمراد بالدين: حقوق الآدميين من دمائهم وأموالهم وأعراضهم؛ أعني: تطويل اللسان في عرضهم بالغيبة والبهتان والقذف، وغير ذلك من حقوق الآدميين، فإنه لا يعفى بالتوبة، بل الطريق الاستحلال منهم، أو دفع حسنات الظالم إلى المظلوم بقدر حقه، أو عناية الله في حق الظالم بأن يتوب ويتضرع إلى الله، ويبالغ في الأعمال الصالحة، حتى يرضى الله عنه ويرضي خصمه من خزانة كرمه".

(المفاتيح في شرح المصابيح: كتاب البيوع، باب الإفلاس والإنظار (3/ 468)، ط. دار النوادر، وهو من إصدارات إدارة الثقافة الإسلامية، وزارة الأوقاف الكويتية، الطبعة  الأولى: 1433 هـ = 2012 م)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"اگر کوئی شخص ایکسیڈنٹ سے مرجائے۔۔۔۔۔ تو وہ شہید ہے یا نہیں؟ فقط۔

الجواب حامدا ومصلیا:        اس کو بھی شہادت کا ثواب ملے گا مگر اس کو غسل وکفن دیا جائے گا۔ فقط واللہ سبحانہ وتعالی اعلم"۔

فتاوی محمودیہ: کتاب الصلاۃ، باب احکام الشہید (9/ 304)، ط. ادارة الفاروق كراچی)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144309101354

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں