بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اختلافی مسئلے میں عوام کو کیا کرنا چاہیے اور ڈیجیٹل تصویر کی حرمت


سوال

جس مسئلے میں علماء کا اختلاف ہو تو ا س مسئلے میں عوام کس کے طریقے کو اختیارکرے؟ جیسے کہ ڈیجیٹل تصویر کا مسئلہ ہے ، جو علماء اس کو سرے سے تصویر ہی نہیں مانتے ، ان کی راۓ پہ عمل کیا جاۓ ؟، اور روزِ محشر جب سب اچھا برا کھل جاۓ گا اور ڈیجیٹل تصویر بھی مکمل تصویر کے حکم میں ہوئی، تو اللہ تعالیٰ کے سامنے ہمارا یہ عذر قابلِ قبول ہوگا  کہ ہم نے تو اپنے قابل  علماء کی راۓ پر عمل کیا ؟

جواب

جب کسی مسئلےمیں مفتیانِ کرام کی آراء کا اختلاف ہوجائے تو عام آدمی کس رائے کو  اختیار کرے؟  اس کی تفصیل یہ ہے:

1- اوّلا ً توجس قول کو دلائل کی رو سے قوت حاصل ہو اس کواختیار کیا جائےگا۔

2- اگر ترجیح کی کوئی صورت نہ ہو  (مثلاً عام آدمی کو دلائل اور ان کی قوت، استنباط اور طریقہ استنباط کا علم نہ ہو) تو پھر جس طرف جمہور اہلِ علم کا رجحان ہو اس قول پر عمل کرے۔

3- اگر دونوں رائے کے قائلین کی تعداد  یکساں  ہویا اتنی زیادہ ہو کہ اکثر اہلِ علم کا رجحان نہ معلوم ہوسکے تو پھر دونوں  جانب موجود علماء میں سے جن کے علم وتقویٰ پر اس کو زیادہ اعتماد ہو اور عام حالات میں بھی ان ہی کی رائے پر عمل کرتا ہو تو ان کی رائےکو لینا لازم ہوگا، یعنی جن علماء سے وہ عموماً راہ نمائی لیتا ہے اور ان کے بیان کردہ مسائل پر اسے اعتماد ہوتاہے، ان ہی کی رائے پر اس مسئلے میں عمل کرے، صرف سہولت یا خواہشِ نفس کی وجہ سے دوسرے عالم کے فتوے پر عمل نہ کرے، خواہ جواز کے قائل مفتی انتہائی متدین و متقی ہوں،نیز اس معاملے میں نفسانی خواہشات کی  آمیزش بالکل بھی   نہ آنے دے۔

4-  اگر بالفرض دونوں میں سے کسی ایک کو دوسرے پر علم وتقوی میں فضیلت یا فوقیت دینے سے عاجزہو تو پھر اس رائے کو اختیار کرے جس میں احتیاط زیادہ ہو، مثلاً: ایک جانب وجوب کا قول ہو اور دوسری جانب استحباب کا تو وجوب والی رائے پر عمل کرے ۔ یا ایک جانب حرمت کا فتوی ہو اور دوسری جانب گنجائش کا تو حرمت والی رائے اختیار کرےگا۔

بہرحال غیر منصوص اجتہادی مسائل میں علماء کی آراء کے اختلاف کو نزاع کا باعث بنانا درست نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور متقدمین سے اجتہادی مسائل میں آراء کا اختلاف بھی منقول ہے، لیکن اس کے ساتھ  اَدب کے ہر پہلو کی جتنی رعایت منقول ہے وہ ہماری لیے مشعلِ راہ ہے، صحابہ کرام کے دور میں اس کی کئی ایک مثالیں ملتی ہیں، مثلاً: غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر  رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو وہاں پہنچ کر نمازِ عصر کی ادائیگی کا کہا تھا، راستہ میں جب نماز قضا ہونے کا خدشہ ہوا تو بعض نے اصل علت کو سامنے رکھ کر راستہ ہی نماز پڑھ  لی اور بعض نے ظاہری الفاظ کو دیکھتے ہوئے نماز قضا ہوجانے دی، بعد میں جب حضور ﷺ سے پوچھا گیا تو دونوں فریقین  کی تصویب فرمائی۔ بہرحال فقہاءِ امت کے اس اختلاف میں بھی امت کے لیے خیر کے دروازے کھلے ہوئے ہیں

نیز عوام کو  ہمیشہ احتیاط والے پہلو  پر عمل کرنا چاہیے، چوں کہ ڈیجیٹل تصویر کے بارے میں اکثر علمائے کرام کا قول حرام ہونے کا ہی ہے، اس لیے عوام کو ڈیجیٹل تصویر سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے، جو علمائے کرام ڈیجیٹل تصویر کو تصویر ماننے کے قائل نہیں ہیں وہ بھی عوام کو احتیاط پر ہی چلنے کا مشورہ دیتے ہیں،ڈیجیٹل تصویر اور ویڈیو سے متعلق   ہمارے ادارے (جامعہ علوم اسلامیہ، علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن) کا فتویٰ یہی ہے کہ یہ تصویر  ہی کے حکم میں ہے اور  جس طرح کاغذ پر بنی ہوئی جان دار کی تصویر حرام ہے، اسی طرح  یہ بھی حرام ہے۔

ڈیجیٹل تصویر کے مجوزین حضرات کے پاس اپنے قول کے دلائل ضرور ہوں گے، لیکن ہمیں ان سے اتفاق نہیں ہے، اس لیے کہ  جان دار کی تصویر کی حرمت سے متعلق نصوص عام ہیں، نیز ہمارے اکابر  نے  جان دار کی تصویر سازی کو مطلقًا ناجائز قرار دیا ہے، خواہ تصویر بنانے کے لیے کوئی بھی آلہ استعمال کیا جائے، اور قریب زمانے تک برصغیر کے اہلِ حق علماء کا بھی تقریبًا اس پر اتفاق رہا ہے، بہرحال اگر اس مسئلے میں اہلِ علم کی آراء کا اختلاف معتبر مانا جائے تو بھی جان دار کی ڈیجیٹل تصویر کے ناجائز ہونے کو ہی ترجیح حاصل ہوگی، اس لیے کہ جس مسئلے میں جائز و ناجائز کا اختلاف ہو، وہاں ترجیح حرمت کو حاصل ہوتی ہے۔ 

باقی یہ بات کہ کیا   روزِ محشر یہ عذر قبول ہوگا کہ ہم نے اپنے سے قابل علماء کی راۓ پر عمل کیا ؟، تو یہ عذرمندرجہ ذیل وجوہات کی بناپر  معقول نہیں ہے :

1۔عرفِ عام میں ہر سادہ لوح مسلمان ڈیجیٹل تصویر کو تصویر ہی سمجھتاہے۔

2۔ احادیث ِ مبارکہ میں سواد ِ اعظم ( یعنی مسلمانوں کی بڑی جماعت) کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے، اور جمہور علماۓ اہل ِ حق کا یہی مؤ قف ہے کہ ڈیجیٹل تصویر ، تصویر کے حکم میں ہی  ہے۔

"وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اتبعوا السواد الأعظم فإنه من شذ شذ في النار."

(مشكاة المصابيح، كتاب الإيمان، ‌‌باب الاعتصام بالكتاب والسنة، ‌‌الفصل الثاني، ج: 1، ص: 62، ط: المكتب الإسلامي)

3۔حدیثِ مبارکہ میں ہے: "حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ امور ہیں " اور ان امور میں بھی نبی کریم ﷺ نے اجتناب ہی کا حکم دیا ہے ۔

"عن عامر قال: سمعت النعمان بن بشير يقول:سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: (‌الحلال ‌بين، ‌والحرام بين، وبينهما مشبهات لا يعلمها كثير من الناس، فمن اتقى المشبها استبرأ لدينه وعرضه، ومن وقع في الشبهات: كراع يرعى حول الحمى أوشك أن يواقعه، ألا وإن لكل ملك حمى، ألا وإن حمى الله في أرضه محارمه."

(صحيح البخاري، كتاب الإيمان،باب: فضل من استبرأ لدينه، ج: 1،ص: 28، ط: دار ابن كثير)

4۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے واضح ارشاد ات میں تقوی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے، یعنی تقویٰ اختیار کرنا مستقل حکم  ِخداوندی ہے،چناں چہ ارشاد باری تعالی ٰ ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(التوبة: 119)

بخاری  شریف اور مشکاۃ المصابیح  میں یہ روایت موجود ہے:

"وعن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أشد الناس عذاباً يوم القيامة الذين يضاهون بخلق الله»."

(مشكاة المصابيح 2/385، باب التصاویر، ط: قدیمي/صحیح البخاري 2/880، ط: قدیمي)

ترجمہ: حضرت عائشہ ؓ  ، رسول کریمﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ  آپ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن سب لوگوں سے زیادہ سخت عذاب  ان لوگوں کو ہوگا جو تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔

(مظاہر حق جدید  ج:4 ، ص: 229  ،ط: دارالاشاعت)

ایک اور حدیثِ مبارک  میں ہے:

"عن عبد الله بن مسعود قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "أشد الناس عذاباً عند الله المصورون."

(مشكاة المصابيح (2/385، باب التصاویر، ط: قدیمي/ الصحیح لمسلم (3/1667،  رقم الحدیث: 2107، ط: دار إحیاء التراث العربي)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریمﷺ  کویہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت ترین عذاب کا مستوجب، مصور (تصویر بنانے والا)ہے“۔

(مظاہر حق جدید، ج: 4 ، ص: 230،   ط: دارالاشاعت)

ایک اور حدیثِ مبارک  میں ہے:

عن ابن عباس قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «كل مصور  في النار يجعل له بكل صورة صورها نفسا فيعذبه في جهنم.

(مشكاة المصابيح، ج:2، ص: 385، باب التصاویر، ط: قدیمي)

ترجمہ: حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ  میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے  ہوئے سنا کہ” ہر مصور دوزخ میں ڈالا جائے گا، اور اس کی بنائی  ہوئی ہر تصویر کے بدلے ایک شخص پیدا کیا جائے گا جو تصویر بنانے والے کو دوزخ میں عذاب دیتا رہے گا“۔

(مظاہر حق جدید،4/230،  ط: دارالاشاعت)

احادیث مبارکہ میں ہے:

"عن عبد الرحمن بن القاسم ، عن أبيه ، أنه سمع عائشة ، تقول:‏‏‏‏ دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد سترت سهوةً لي بقرام فيه تماثيل، ‏‏‏‏‏‏فلما رآه هتكه وتلون وجهه، ‏‏‏‏‏‏وقال: يا عائشة:‏‏‏‏ " أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة الذين يضاهون بخلق الله "، ‏‏‏‏‏‏قالت عائشة:‏‏‏‏ فقطعناه، ‏‏‏‏‏‏فجعلنا منه وسادةً أو وسادتين."

(صحيح مسلم، ‌‌كتاب اللباس والزينة، ‌‌باب: لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة، 6/ 159، ط: دار الطباعة العامرة)

ترجمہ: ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور میں نے ایک طاق یا مچان کو اپنے ایک پردے سے ڈھانکا تھا جس میں تصویریں تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو اس کو پھاڑ ڈالا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ! سب سے زیادہ سخت عذاب قیامت میں ان لوگوں کو ہو گا جو اللہ کی مخلوق کی شکل بناتے ہیں۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا میں نے اس کو کاٹ کر ایک تکیہ بنایا یا دو تکیے بنائے۔

"عن نافع ، أن ابن عمر أخبره، ‏‏‏‏‏‏أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ " الذين يصنعون الصور يعذبون يوم القيامة، يقال لهم: أحيوا ما خلقتم ".

(صحيح مسلم، كتاب اللباس والزينة، ‌‌باب: لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة،6/ 161 ط: دار الطباعة العامرة)

ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو لوگ مورتیں بناتے ہیں ان کو قیامت میں عذاب ہو گا، ان سے کہا جائے گا جلاؤ  ان کو جن کو تم نے بنایا۔

"عن مسروق ، عن عبد الله ، قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " إن أشد الناس عذاباً يوم القيامة المصورون ".

(صحيح مسلم، كتاب اللباس والزينة، ‌‌باب: لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة، 6/ 161، ط :دار الطباعة العامرة)

ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے زیادہ سخت عذاب قیامت میں تصویر بنانے والوں کو ہو گا۔

"عن سعيد بن أبي الحسن ، قال:‏‏‏‏ جاء رجل إلى ابن عباس ، فقال:‏‏‏‏ إني رجل أصور هذه الصور فأفتني فيها؟ فقال له:‏‏‏‏ ادن مني، فدنا منه، ‏‏‏‏‏‏ثم قال:‏‏‏‏ ادن مني، فدنا حتى وضع يده على رأسه، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ أنبئك بما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏يقول:‏‏‏‏ " كل مصور في النار يجعل له بكل صورة صورها نفساً فتعذبه في جهنم "، ‏‏‏‏‏‏وقال:‏‏‏‏ إن كنت لا بد فاعلاً فاصنع الشجر، ‏‏‏‏‏‏وما لا نفس له".

(صحيح مسلم، كتاب اللباس والزينة، ‌‌باب: لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة، 6/ 162 ط: دار الطباعة العامرة)

ترجمہ: سعید بن ابی الحسن سے روایت ہے، ایک شخص عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں تصویر بنانے والا ہوں تو اس کا کیا حکم ہے بیان کیجیے مجھ سے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میرے قریب ہو، وہ ہوگیا، پھر انہوں نے کہا: قریب ہوجاؤ، چناں چہ وہ اور نزدیک ہوگیا یہاں تک کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھا اور کہا: میں تجھ سے کہتا ہوں وہ جو میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”ہر ایک تصویر بنانے والا جہنم میں جائے گا اور ہر ایک تصویر کے بدل ایک جان دار بنایا جائے گا جو تکلیف دے گا اس کو جہنم میں۔“ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اگر تو نے بنانا ہی ہے تو درخت کی یا کسی اور بےجان چیز کی تصویر بنا۔

"عن النضر بن أنس بن مالك ، قال:‏‏‏‏ كنت جالساً عند ابن عباس، ‏‏‏‏‏‏فجعل يفتي، ‏‏‏‏‏‏لايقول:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى سأله رجل، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ إني رجل أصور هذه الصور، ‏‏‏‏‏‏فقال له ابن عباس:‏‏‏‏ ادنه فدنا الرجل، ‏‏‏‏‏‏فقال ابن عباس : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏يقول:‏‏‏‏ " من صور صورة في الدنيا كلف أن ينفخ فيها الروح يوم القيامة، ‏‏‏‏‏‏وليس بنافخ".

(صحيح مسلم،  كتاب اللباس والزينة، ‌‌باب: لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة،6/ 162 ط: دار الطباعة العامرة)

ترجمہ: سیدنا نضر بن انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ فتویٰ دیتے تھے اور حدیث نہیں بیان کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے پوچھا: میں مصور ہوں، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میرے پاس آ، وہ پاس آیا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جو شخص دنیا میں تصویر بنائے اس کو قیامت میں تکلیف دی جائے گی اس میں جان ڈالنے کی اور وہ جان نہ ڈال سکے گا۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101930

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں