بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اختلاف مطالع اور رؤیت حلال کے متعلق چند سوالات


سوال

 علماء کرام سے اس مسئلہ میں صحیح قول کی نشاندہی درکار ہے کہ اختلاف مطالع کے بارے میں فقہ حنفی کا ظاہر الروایۃ قول تو یہی ہے کہ اختلاف مطالع معتبر نہیں ، جیساکہ در مختار میں ہے :

"واختلاف المطالع غیر معتبر علی ظاہر المذھب وعلیہ اکثر المشائخ وعلیہ الفتوی، بحر عن الخلاصۃ فیلزم اھل المشرق برؤیۃ اھل المغرب اذا ثبت عندھم أولئک بطریق موجب ،قال الزیلعی الاشبہ انہ یعتبر لکن قال الکمال الأخذ بظاہر الروایۃ احوط."

(کتاب الصوم، ج:3 ص:417،418 ط:  دارالمعرفۃ)

فتح القدیر میں ہے :

"واذا ثبت فی مصر لزم سائر الناس فیلزم اھل المشرق برؤیۃ اھل المغرب فی ظاہر المذھب ."

(فصل فی رؤیۃ الہلال،ج: 2 ص: 318 ط: دارالکتب)

فتاوی ھندیہ میں ہے :

"ولا لاختلاف المطالع فی ظاہر الروایۃ کذا فی فتاوی قاضی خان و علیہ فتوی الفقیہ ابی اللیث وبہ کان یفتی شمس الأئمۃ الحلوانی :قال لو رأی اھل مغرب ھلال رمضان یجب الصوم علی اھل مشرق کذا فی الخلاصۃ ."

(کتاب الصوم الباب الثانی فی رؤیۃ الھلال ،ج :1 ص :434 ط:  رشیدیہ)

فتاوی قاضی خان میں ہے :

"  ولاعبرۃ لاختلاف المطالع فی ظاہر الروایۃ کذا ذکرہ شمس الأئمۃ الحلوانی."

(الفصل الاول فی رؤیۃ الہلال،ج: 1 ص: 434 ط:  رشیدیہ)

المحیط البرہانی میں ہے :

"وذکر شمس الأئمۃ الحلوانی: انالصحیح  من مذھب اصحابنا رحمھم اللہ ان الخبر اذا استفاض و تحقق فیما بین اھل البلدۃ الاخری یلزمھم حکم اھل ھذہ البلدۃ ."

(کتاب الصوم ،الفصل الثانی مایتعلق برؤیۃ الھلال،ج :3 ص :342  )

امداد الفتاویٰ میں شامی کی عبارت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

"اس سے معلوم ہوا کہ مفتی بہ قول یہی ہے کہ اختلاف مطالع معتبر نہیں،"

(اختلاف مطالع اور حدیث ابن عباس کا مطلب ،ج ؛4 ص :187 )

البتہ متاخرین نے اس قول کی توجیہ اس طرح کی ہے کہ بلاد قریبہ میں اختلاف مطالع معتبر نہیں اور بلاد بعیدہ میں معتبر ہے ، جیسا کہ حاشیۃ ابن عابدین میں ہے :

"(علی ظاہر المذھب) اعلم ان نفس اختلاف المطالع لانزاع فیہ بمعنی انہ قدیکون بین البلدتین بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وقدر البعد الذی تختلف فیہ المطالع مسیرۃ شہر فاکثر علی ما فی القہستانی عن الجواھر اعتبارا بقصۃ سلیمان ."

( مطلب فی رؤیۃ الہلال نہارا،ج :3 ص: 418 )

بدائع الصنائع میں ہے :

"اذا کانت المسافۃ بین البلدتین قریبۃ لاتختلف فیہا المطالع ،فاما اذا کانت بعیدۃ فلایلزم احد البلدین حکم الآخر لان مطالع البلاد عند المسافۃ الفاحشۃ تختلف فیعتبر فی اھل کل بلد مطالع بلدھم دون البلد الآخر."

(کتاب الصوم ،فصل و اما شرائطھا،ج :2 ص: 83 )

بلدقریب کی حد بندی کے بارے میں حاشیہ ابن عابدین میں مسیرۃ شہر ، فتاوی محمودیہ میں ہزار 1000 میل اور معارف السنن میں 500 میل ذکر کئے گئے ہیں ۔

حل طلب امو درج ذیل ہیں:

1: "لکل بلد رؤیتھم "  میں بلد کی مراد کیا ہے ؟کیا اس سے مراد ملک یا شہر ہے ؟ یا اس سے مراد یہ ہے کہ جن علاقوں کا مطلع ایک ہو وہ ایک بلد کہلائےگے؟

2 :بلد قریب کی صحیح تحدید کیا ہے ،اور کلو میٹر کے حساب سے وہ کتنی بنے گی ؟

3 :افغانستان یا دیگر قریبی ممالک اگر رؤیت و شہادت کا اہتمام کرے تو ان کے ساتھ عید و رمضان کرنا کیسا ہے ؟

4: یہ حکم درجہ وجوب میں ہے یا جواز میں ؟ 

جواب

واضح رہے کہ ملک کی مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی  قاضی شرعی کی  حیثیت    رکھتی ہے، لہذا شہادت موصول ہونے پر اگر وہ اعلان کردے تو ملک میں  جن لوگوں تک یہ اعلان    معتبر ذرائع سے پہنچ جائے، ان پر روزہ رکھنا یا عید منانا (افطارکرنا) لازم ہوگا، اور اس ملک والوں کے لیے اسی اعلان کے مطابق عید یا روزہ صحیح ہوگا۔ 

1۔ "لكل بلد رؤِتهم"اس سے مراد ایک ملک و مملکت ہے،جہاں الگ سے قوانین ہو،اور ایک حکومت  ریاست کو چلاتی ہو،اور ان کا  الگ سےایک  امام اور حاکم موجودہو۔ 

2۔ واضح رہے کہ  بلادِ  بعیدہ کی تعیین میں اقوال مختلف ہیں، علامہ شامی نے لکھا ہے کہ: بعض فقہاء فرماتےہیں: ایک مہینہ کی مسافت پر مطلع بدل جاتا ہے، اور فقہاء کی تصریحات کے مطابق تین دن کا سفر  48 میل بنتا ہے ،تو اس حساب سے 480 میل کی مسافت پر مطلع تبدیل ہوگا، دوسرا قول یہ لکھا ہے کہ:اختلافِ مطالع 24 فرسخ سے کم فاصلہ میں ممکن ہی نہیں ہے  ،اور ایک فرسخ میں تین میل ہوتے ہیں ،لہٰذا 72 شرعی میل پر مطلع بدل جائے گا ،نیز  معارف السنن میں محدث العصر حضرت بنوری رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ تقریباً پانچ سو میل کی مسافت پر مطلع بدل جاتا ہے۔

3۔ عصرِ حاضر کے تمام مسلم ممالک میں چاند کی رؤیت کے لیے باقاعدہ رؤیتِ ہلال کمیٹیاں موجود ہیں، جو باقاعدہ چاند دیکھ کر رمضان اور عید وغیرہ کا اعلان کرتی ہیں،اور ہر مسلم ملک کی  رؤیت ہلال کمیٹی  قاضئ شرعی کی  حیثیت    رکھتی ہے، اور شہادت موصول ہونے پر اگر وہ اعلان کردے تو اس ملک کی حدود اور ولایت میں  رہنے والے جن لوگوں تک یہ اعلان یقینی اور معتبر ذرائع سے پہنچ جائے ، ان پر شرعا ًاس فیصلے کے مطابق عمل کرنالازم ہے ، لہذا پاکستان کے باشندوں پر اپنے  ملک کی مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے فیصلہ کی پاس داری رکھنا لازم ہے ،  پاکستان میں رہتے ہوئے  روزہ اور عید کے لیے افغانستان کی رؤیت ہلال کمیٹی یا کسی اور ملک کے کمیٹی کا اعتبار کرنا درست نہیں ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو بندہ جس ملک میں رہتا ہو،اور  وہاں باقاعدہ رؤیت ہلال کی کمیٹی موجود ہوتو اس ریاست کی  حکومت کے اعلان پر ہی روزہ رکھا جائےاور عید منائی جائے۔

4۔ رمضان کا آغاز و اختتام مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے فیصلہ کے مطابق عمل کرنا  اس ریاست کے باشندوں  پر لازم ہے۔

نیز کسی دوسرے ملک کے اعلان کرنے پر عید منانا اور روزہ رکھنا،اور اپنے وطن عزیز کے اعلان کو پس پشت ڈالنا معقول بات نہیں،لہذا  کمیٹی کے اعلان پر ہی اعتماد کر کے روزہ رکھا جائے،اور عید منائی جائے۔

نیل الاوطا ر میں ہے:

"وثانيها: أنه لا يلزم أهل بلد رؤية غيرهم إلا أن يثبت ذلك عند الإمام الأعظم فيلزم كلهم لأن البلاد في حقه كالبلد الواحد إذ حكمه نافذ في الجميع، قاله ابن الماجشون."

(کتاب الصیام، باب الهلال إذا رآه أهل بلدة هل يلزم بقية البلاد الصوم، ج:4 ص: 230 ط: دارالحدیث)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"الفتاوی النسفیة: سئل عن قضاء القاضي برؤیة هلال شهر رمضان بشهادة شاهدین عند الاشتباه في مصر، هل یجوز لأهل مصر آخر العمل بحکمهم؟ فقال:لا، ولایکون مصرآخر تبعاً لهذا المصر، إنما سکان هذا المصر وقراها یکون تبعاً له."

(کتاب الصوم، الفصل الثاني فیما یتعلق برؤیة الهلال، ج:2 ص: 356، ط: ادارۃ القرآن)

معارف السنن میں ہے :

"وعلى كل حال بلاد الهند واسعة الأرجاء تختلف عروضها من ست عشرة درجة إلى أربع و ثلاثين درجة، والمسافة بينها تبلغ إلى نحو ألفي ميل، وحققوا وقوع الاختلاف في المطلع بنحو خمس مائة ميل، فكيف يتصور الجهد للتوحيد في مثله؟."

(معارف السنن شرح سنن الترمذي، تحقيق اعتبار اختلاف المطالع، ج:5 ص:343 ط: مجلس الدعوة والتحقيق الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وأقرب الأقوال ‌أن ‌الميل وهو ثلث الفرسخ."

( كتاب الطهارة، الباب الرابع، الفصل الأول لابد منها في التيمم، ج:1 ص:27 ط: دارالفكر)

مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ "زبدۃ المقال فی رؤیۃ الہلال" میں تحریر فرماتے ہیں:

"إذا ثبت الصوم أو الفطر عند حاکم تحت قواعد الشرع بفتوی العلماء أو عند واحد أو جماعة من العلماء الثقات ولاّهم رئیس المملکة أمر رؤیة الهلال، وحکموا بالصوم أو الفطر  ونشروا حکمهم هذا في رادیو، یلزم علی من سمعها من المسلمین العمل به في حدود ولایتهم، وأما فیما وراء حدود ولایتهم فلا بد من الثبوت عند حاکم تلک الولایة بشهادة شاهدین علی الرؤیة أو علی الشهادة أو علی حکم الحاکم أو جاء الخبر مستفیضاً، لأن حکم الحاکم نافذ في ولایته دون ما وراءها."

(زبدۃ المقال فی رؤیة الھلال، بحواله خیر الفتاوی، ج:4118ِ ط: مکتبة امدادیة)

جواہر الفقہ میں ہے:

"اور  جس طرح  ایک شہر کے قاضی یا ہلال کمیٹی کا فیصلہ اس شہر اور اس کے مضافات کے لیے واجب العمل ہے اسی طرح اگر کوئی قاضی یا مجسٹریٹ یا ہلال کمیٹی  پورے ضلع یا صوبہ یا پورے ملک  کے لیے ہو تو اس کا فیصلہ  اپنے اپنے حدود ولایت میں واجب العمل ہوگا۔"

(مسئلہ رؤیت ہلال، ج :3 ص:484  ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)

وفیہ ایضاً:

"بلادِ قریبہ و بعیدہ میں  اختلافِ مطالع کے حوالے سے حضرت مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ  اپنے رسالہ "إحكام الادلّة في أحكام الأهلة"میں حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ کے متعلق لکھتے ہیں :

"استاذمحترم حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے فتح الملہم شرح مسلم میں اسی آخری قول کو ترجیح کے لیے ایسی چیز کی طرف توجہ دلائی ہےکہ اس پر نظر کرنے کے بعد اس قو ل کی ترجیح واضح ہوجاتی ہے، خصوصاً اس زمانےمیں جب کہ مشرق و مغرب کا فاصلہ چند گھنٹوں میں طے ہورہا ہے،وہ یہ کہ قرآن وسنت میں یہ بات منصوص اور قطعی ہے کہ کوئی  مہینہ انتیس دن سے کم اور تیس دن سے زائد نہیں ہوتا، بلادِ بعیدہ اور مشرق ومغرب کے فاصلوں میں اگر اختلافِ مطالع مطلقاًنظر انداز کر دیا جائے، تو اس نصِ قطعی کے خلاف یہ لازم آ جائے گا ،کہ کسی شہر میں اٹھائیس کو بعید ملک سے اس کی شہادت پہنچ جائے کہ آج وہاں چاند دیکھ لیا گیا ہے ،تو اگر اس شہر کو دوسرے کے تابع کیا جائے تو اس کا مہینہ اٹھائیس کا رہ جائے گا ، اسی طرح اگر کسی شہر میں رمضان کی تیس تاریخ کو کسی بعید ملک کے متعلق بذریعہ شہادت یہ ثابت ہو جائے، کہ آج وہاں انتیس  تاریخ ہے، اور اگر چاند نظر نہ آیا تو کل وہاں روزہ ہوگا، اور اتفاقاً چاند نظر نہ آیا تو ان کو اکتیس روزے رکھنے پڑیں گے، اور مہینہ اکتیس کا قرار دینا پڑے گا، جو نص قطعی کے خلاف ہے ،اس لیے ناگزیر ہے کہ بلادِ بعیدہ میں اختلافِ مطالع کا اعتبار کیا جاۓ۔

حضرت علامہ عثمانی کی اس تحقیق سے اس کا بھی فیصلہ ہو گیا، کہ بلا دِقر یبہ اور بعیدہ میں قرب و بعد کا معیار کیا اور کتنی مسافت ہوگی؟ وہ یہ کہ جن بلاد میں اتنا فاصلہ ہو، کہ ایک جگہ کی رؤیت دوسری جگہ اعتبار کرنے کے نتیجے میں مہینہ کے دن اٹھائیس رہ جائیں، یا اکتیس ہو جائیں، وہاں اختلافِ مطالع کا اعتبار کیا جائے گا، اور جہاں اتنا فاصلہ نہ ہو وہاں نظر انداز کیا جاۓ گا ،احقر کا گمان یہ ہے امام اعظم ابوحنیفہ اور دوسرے ائمہ جنہوں نے اختلافِ مطالع کو غیر معتبر قرار دیا ہے ،اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ جن بلاد میں مشرق ومغرب کا فاصلہ ہے، وہاں ایک جگہ کی شہادت دوسری جگہ پہنچنا ان حضرات کے لیے محض ایک فرضی قضیہ اور تخیل سے زائد کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا، اور ایسے فرضی قضایا سے احکام پر کوئی اثر نہیں پڑتا،  نادر کو حکمِ معدوم قرار دینا فقہاء میں معروف ہے، اس لیے اختلافِ مطالع کو مطلقاً غیر معتبر فرمایا،لیکن آج تو ہوائی جہازوں نےساری دنیا کے مشرق و مغرب کو ایک کرڈالاہے،ایک جگہ کی شہادت دوسری جگہ پہنچنا قضیہ فرضیہ نہیں،بلکہ روز مرہ کا واقعہ بن گیا ہے، اور اس کے نتیجے میں اگر مشرق کی شہادت مغرب میں اور مغرب کی شہادت مشرق میں حجت مانی جائے،توکسی جگہ مہینہ اٹھائیس دن کا کسی جگہ اکتیس دن کا ہونا لازم آ جاۓ گا،اس لیے ایسے بلادِ بعیدہ میں جہاں مہینہ کے دنوں میں کمی بیشی کا امکان ہو، اختلافِ مطالع کا اعتبار کرنا ہی ناگزیر اور مسلکِ حنفیہ کے عین مطابق ہوگا۔"

( کتاب الصوم، ج:3  ص:481 تا 483   ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144412101500

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں