بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک ساتھ تین طلاق دینے کا حکم


سوال

 اگر عورت کو ایک ساتھ تین طلاق دی جائیں ایک ہی وقت میں تو کیا طلاق ہو جائے گی قرآن و حدیث کے حوالے سے بتائیں؟

جواب

واضح رہے کہ قرآن و حدیث، جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعینؒ، تبع تابعینؒ اور ائمہ مجتہدینؒ بشمول ائمہ اربعہؒ ( یعنی حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک ، حضرت امام شافعی، اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) کے متفقہ فتوی کی رو سے ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں ، ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمار کرنا قرآن و حدیث، جمہور صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمول ائمہ اربعہ کے متفقہ فتوی کے خلاف ہونے کی وجہ سے غلط اور ناقابلِ اعتبار ہے۔

 قرآنِ کریم میں باری تعالٰی کا ارشاد ہے:

"{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ}." (البقرة: 230)

ترجمہ:"اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دی  تو جب وہ عورت دوسرے سے  نکاح  نہ کرلے اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔" (بیان القرآن)

اسی طرح  ایک ساتھ دی گئی  تین طلاق کے وقوع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ بخاری شریف (٢/٧٩١) ميں اور سنن أبي داؤد، باب اللعان(١/٣٢٤) میں مذکور ہے:

"عن ابن شهاب عن سهل بن سعد في هذا الخبر قال: فطلقا ثلاث تطليقات عند رسول الله صلي الله عليه وسلم، فأنفذه رسول الله صلي الله عليه وسلم".( ابو داؤد).

اور حضرات خلفاء راشدین میں سے حضرت عمر ،حضرت عثمان،حضرت علی رضی اللہ عنہم کے تین طلاق کے وقوع کے فیصلے بھی کتبِ احادیث میں مذکور ہیں:

خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا فیصلہ "مصنف ابن أبي شيبة"میں مذکور ہے:

"عن أنس رضي الله عنه: كان عمر رضي الله عنه إذا أتي برجل قد طلق إمرأته ثلاثاً في مجلس أوجعه ضرباً و فرق بينهما".

(باب من كره أن يطلق الرجل إمرأته ثلاثاً ٤/١١)

خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا فیصلہ "مصنف ابن أبي شيبة"میں مذکور ہے:

"عن معاوية ابن أبي يحي قال: جاء رجل إلى عثمان فقال: إني طلقت امرأتي مائةً؛ قال: ثلاث تحرمها عليك و سبعة و تسعون عدوان".

( باب ماجاء يطلق إمرأته مائة و ألف في قول واحد ٤/١٣)

خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فیصلہ "مصنف عبد الرزاق"میں مذکور ہے:

"عن شريك بن أبي نمر قال: جاء رجل إلى علي رضي الله عنه فقال: إني طلقت إمرأتي عدد العرفج؛ قال: تأخذ من العرفج ثلاثاً و تدع سائره".

(باب الطلق ثلاثاً ٦/٣٠٦)

یہی وجہ ہے کہ روزِ اول سے آج تک پوری امت کے جمہور علماء کرام کا یہی موقف ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ساتھ  تین طلاقیں دے دے تو اس سے اُس کی بیوی پر تینوں  طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں اور بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو جاتی ہے ۔

شرح النووي على مسلم میں ہے:

"وَقَدِ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِيمَنْ قَالَ لِامْرَأَتِهِ: أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا، فَقَالَ الشَّافِعِيُّ وَ مَالِكٌ وَ أَبُو حَنِيفَةَ وَأَحْمَدُ وَجَمَاهِيرُ الْعُلَمَاءِ مِنَ السَّلَفِ وَ الْخَلَفِ: يَقَعُ الثَّلَاثُ."

(کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث، ج:1، ص:474، ط:قدیمي کتب خانه)

تفسیر "احکام القرآن" للقرطبی میں تین طلاق کے وقوع پر امت کا اجماع منقول ہے:

"قال علمائنا: و اتفق ائمة الفتوى علي لزوم إيقاع الطلاق الثلاث في كلمة واحدة". (١/٦٩٢)

فتاویٰ شامی میں ہے:

 "و ذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث".

(کتاب الطلاق، ج:3، ص:233، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101149

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں