بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک مشت سے زائد داڑھی بڑھانا


سوال

کیا ایک مشت سے زائد داڑھی بڑھانا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ داڑھی کے بال لمبائی کے لحاظ سے ایک مشت ہے،اور جو (اس سے ) زیادہ ہو اس کو کاٹناجائزہے ، ایک مشت سے زائد اتنے بال کاٹنے  چاہییں،جن سے داڑھی حسین ہو اور کنگھی بھی آسانی سے ہوسکے ۔

البناية في شرح الهداية ميں ہے:

"‌والقص ‌سنة فما زاد على قبضة قطعها، ولا بأس بنتف الشيب وأخذ أطراف اللحية إذا طالت."

(كتاب الصوم،ج:4،ص:73،ط:دارالكتب الإسلامي)

البحر الرائق میں ہے:

"وقال: أصحابنا الإعفاء تركها حتى تكث وتكثر ‌والقص ‌سنة فيها، وهو أن يقبض الرجل لحيته فما زاد منها على قبضة قطعها كذلك ذكر محمد في كتاب الآثار عن أبي حنيفة قال: وبه نأخذ وذكر هنالك عن ابن عمر أنه كان يفعل ذلك (قوله: والسنة قدر القبضة إلخ) تقدم الكلام على ذلك في كتاب الصوم قبيل فصل العوارض."

(کتاب الحج،باب الجنايات في الحج،ج:3،ص:12،ط:دارالكتب الإسلامي)

حدیث مبارکہ میں ہے:

"عن عمرو بن شعیب عن أبیه عن جده، أن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه کان یأخذ من لحیته من طولها وعرضها."

(سنن الترمذي، کتاب الأدب، باب ماجاء في الأخذ اللحیة، النسخة الهندیة ۲/۱۰۵، رقم: ۲۷۶۲،ط: دار السلام)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

سوال: حضرت داڑھی میں افضل کیا ہے؟ ایک مشت سے زیادہ لینا یا چھوڑ دینا؟

جواب:دونوں قول ہیں، ایک قول ایک مشت سے زیادہ کو کٹا دینا مسنون ہے دوسرا قول یہ ہے کہ یہ مسنون نہیں، و هو سنة کما في المبتغی، وفي المجتبي و الینابیع و غیرهما: لا بأس بأخذ أطراف اللحیة إذا طالت.( ردالمحتار،ص۲/۱۱۳سعيد)

سوال:- ہمارے اکابر کا معمول کیا تھا؟

جواب:- تھوڑی سی بڑھ جاتی تو کچھ مضائقہ نہ سمجھتے تھے، زیادہ نہیں بڑھنے دیتے تھے۔"

(کتاب الحضر والاباحت،ج:30،ص:473،ط:ادارہ فاروق)

فتاوی رشدیہ میں ہے:

سوال:داڑھی رکھنا کہاں تک جائز ہے اور کہاں تک منع ہے؟

جواب: داڑھی ایک مشت سے کم رکھنا منع ہے اور ایک مشت سے زائد کو اگر کاٹ دیوے درست ہے۔

(حرمت اور  جوازکے مسائل ، ص:590،ط:عالمی مجلس تحفظ اسلام)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101028

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں