بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک خصیہ والا جانور کی قربانی کا حکم؟


سوال

ایک خصیہ والے  جانور کی قربانی کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قربانی سے مانع عیب وہ ہے جو جانور کے  جمال یا (مقصودی)  منفعت کو مکمل یا اکثر  ختم کرے،اگر جانور میں ایسی کوئی  کمی  ہو  جس سے جانور میں مقصودی منفعت میں کمی نہیں آتی ہو، بلکہ اس میں عمدگی آتی ہو تو وہ عیب شمار نہیں ہوتا، اس لیے  خصی ہونا  عیب نہیں ہے؛ کیوں کہ   اس کی وجہ سے جانور کی مقصودی منفعت ( گوشت  اور بار برداری ) میں کوئی کمی نہیں آتی، خصی ہونے کی وجہ سے تو  گوشت  زیادہ لذیذ  ہوجاتا ہےاور  بار برداری کے کاموں میں بھی خصی جانور کو بہت تگڑا مانا جاتا ہے، اور جب دونوں خصیے نہ ہوں تو قربانی جائز، بلکہ افضل  ہوتی ہے ؛ لہذا  ایک خصیہ والے جانور کی قربانی بھی  جائز ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

ومن المشايخ من يذكر لهذا الفصل أصلا ويقول: كل عيب يزيل المنفعة على الكمال أو الجمال على الكمال يمنع الأضحية، وما لا يكون بهذه الصفة لايمنع ... والخصي أفضل من الفحل؛ لأنه أطيب لحما، كذا في المحيط.

(الفتاوى الهندية: كتاب الأضحية، الباب الخامس في بيان محل إقامة الواجب (5/ 299)،ط. رشيديه) 

بدائع الصنائع میں ہے:

وأما الذي يرجع إلى محل التضحية فنوعان: أحدهما: سلامة المحل عن العيوب الفاحشة.

(بدائع الصنائع: كتاب التضحية، فصل في شرائط جواز إقامة الواجب في الأضحية (5/ 75)،ط.  دار الكتب العلمية،الطبعة: الثانية، 1406هـ - 1986م)

البحر الرائق میں ہے:

قال - رحمه الله -: (ويضحي بالجماء) التي لا قرن لها -يعني: خلقة- لأن القرن لا يتعلق به مقصود وكذا مكسورة القرن بل أولى قال - رحمه الله -: (والخصي) وعن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - هو أولى لأن لحمه أطيب وقد صح أنه  عليه الصلاة والسلام «ضحى بكبشين أملحين موجوءين»۔

(البحر الرائق : كتاب الأضحية (8/ 200)،ط. دار الكتاب الإسلامي)

مشکوة کی شرح لمعات میں ہے:

 والخصاء: سل الخصيتين، فإن قلت: كيف يجوز الموجوء، والوجاء نقصان؟ قلنا: الخصا ههنا نقصانٌ صورة وكمالٌ معنًى؛ لأن لحم الخصي أطيب وألذ، وقول من كره الخصي في الأضحية غير صحيح.

)لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح لعبد الحق بن سيف الدين بن سعد اللَّه البخاري الدِّهلوي الحنفي  (المتوفى :1052 هـ):  باب في الأضحية (3/ 275)،ط. دار النوادر، دمشق  سوريا، الطبعة: الأولى، 1435 هـ - 2014 م) 

 فقط، واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200830

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں