آج سے دس سال قبل ہم بھائیوں نے والد صاحب کی وراثت اپنے درمیان تقسیم کر لی تھی ،بہنوں کو اور والدہ کو یہ کہہ کر کچھ نہیں دیا کہ ان پر ہم خرچ کرتے رہیں گے یا شادی میں ہم نے انھیں کافی دے دیا ہے،اب دس سال بعد میرا ارادہ ہوا ہے کہ میں والدہ اور بہنوں کو ان کا حصہ جو میرے پاس زائد آچکا ہے وہ دےدوں۔
میرا سوال یہ ہے کہ اب میں اپنے پاس سے کتنے ادا کروں کہ ان کا حصہ میری طرف سے ادا ہو جائےاور میرے پاس صرف میرا ہی حصہ رہ جائے؟ والد مرحوم کی جائیداد کچھ اپنے حال پہ ہے، کچھ کاروبار تھا جو ہم نے بڑھا دیا اور کچھ نقدی تھی جو خرچ ہو گئی ،ہم تین بھائی پانچ بہنیں اور ایک والدہ ہیں، تقسیم کرکے بتادیں؟
صورت مسئولہ میں مرحوم والد صاحب کی میراث تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہےکہ سب سے پہلے مرحوم کےحقوقِ متقدمہ یعنی تجہیزو تکفین کے اخراجات ادا کرنے کے بعد ،اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو کل مال سے ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایکتہائی ترکہ سے اسے نا فذ کرنے کے بعد، باقی تمام ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کو 88 حصوں میں تقسیم کرکے 11 حصے مرحوم کی بیوہ کو ،14حصے مرحوم کے ہرایک بیٹے کو ،7حصے مرحوم کی ہرایک بیٹی کو ملیں گے۔
نیز والد مرحوم کا جو کاروبار بیٹوں نے بڑھایا ہے، چوں کہ یہ تقسیم سے پہلے بڑھایا گیا ہے، اس لیے اب کاروبار کے تمام اثاثوں میں تمام ورثاء کا بشمول والدہ اوربہنوں پورا پورا حق ہے، اس میں والدہ اور بہنوں کا حصہ کم کرنا جائز نہیں ہے،البتہ والدہ اور بہنوں پر اب تک جو خرچہ کیا گیا ہے، اگر خرچ کرتے وقت ان سے یہ معاہدہ طے پایا تھا کہ یہ رقم ان کےحصۂ وراثت سے منہا کی جائے گی تو اب یہ اخراجات ان کے حصۂ وراثت سے لیے جاسکتے ہیں، لیکن اگر اس طرح کاکوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا تو پھر بھائیوں کو اس رقم کی واپسی کے مطالبہ کا حق نہیں ہوگا۔
صورت تقسیم یہ ہے:
میت:(والد)مسئلہ :88/8
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | |||||||
11 | 14 | 14 | 14 | 7 | 7 | 7 | 7 |
یعنی سور وپےمیں سے 12.5روپے مرحوم کی بیوہ کو ،15.909روپے مرحوم کے ہرایک بیٹے کو ،7.954روپے مرحوم کی ہرایک بیٹی کو ملیں گے۔
درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح) تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما، وحاصلاتها أيضا يجب أن تكون على هذه النسبة؛ لأن الغنم بالغرم .
الحاصلات: هي اللبن والنتاج والصوف وأثمار الكروم والجنائن وثمن المبيع وبدل الإيجار والربح وما أشبه ذلك."
(الکتاب العاشر: الشرکات،الباب الأول في بيان شركة الملك،الفصل الثاني في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة،ج3،ص26،رقم المادة : 1073ط؛دار الجیل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611102414
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن