بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 محرم 1447ھ 03 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

اجتماعی قربانی کے اخراجات سے بچ جانے والی رقم کا حکم


سوال

اجتماعی قربانی کرنے والے بعض ادارے  اشتہار میں اس بات کی صراحت کرتے ہیں کہ فی حصہ مثلا 35000 کا ہے اور جو کچھ پیسے بچ جائیں گے وہ بقایا رقم گوشت حوالے کرتے وقت واپس دی جائے گی، جب کہ ہوتا یہ ہے کہ وہ در حقیقت پیسے واپس نہیں کیے جاتے۔

۱) اب سوال یہ ہے کہ یہ پیسے ان کے لیے رکھنا کیسا ہے؟ جائز ہےیا نہیں؟

۲) اگر کوئی اس عمل کو کاروبار بنا لے اور وہ ہر سال اس طرح کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

۱،۲) مذکورہ  اداروں کی حیثیت اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والے شرکاء کے وکیل کی ہے اور شرکاء کی طرف سے ادا کردہ رقم ان کے پاس امانت ہے، لہذا جو رقم بچ جائے اس کا واپس کرنا ضروری ہے ، اس رقم کا استعمال ادارہ کے لیے جائز نہیں ہے۔

اجتماعی قربانی سے باقی ماندہ رقم شرکاء کو واپس کرنا مشکل  کام نہیں،  بلکہ جب گوشت لینے آئیں  تو گوشت کے ساتھ بچی ہوئی رقم واپس کر دی جائے  ،اور  اگر وقت گزر جائے  پھر احساس ہو تو  شرکاء کو فون  کے ذریعہ  اطلاع کر کے وہ رقم  ان کے حوالے کریں  یاپھر جیسے وہ کہیں  ویسا کریں ، اس سے ذمہ داری ادا ہو نے کے ساتھ ساتھ  اعتماد میں بھی اضافہ ہو گا ۔

واضح رہے کہ اجتماعی قربانی کی انتظامیہ اجرت کے طور پر کچھ لینا چاہے تو ابتداہی سے متعین کر کے لے سکتے ہیں بعد میں لینا جائز نہیں ہے ۔

شرح مجلۃ الاحکام  میں ہے:

"ضابط: ‌الوكيل ‌أمين على المال الذي في يده كالمستودع."

(کتاب الوکالۃ، المادۃ ۱۴۶۳،ج:۳،ص:۵۶۱، دار الجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611102287

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں