بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اجتماعی قربانی میں جانور کی خریداری کے لیے مدرسہ کے فنڈ سے رقم لینا اور قربانی کے لیے مدرسہ کی زمین استعمال کرنا اور اس پر اجرت لینا اور قربانی کے جانوروں سے باقی ماندہ رقم کا حکم


سوال

1. ہماری زیرِ نگرانی اکثر لوگ اجتماعی قربانی کرتے ہیں، جس میں اکثر اوقات حصہ داروں کی کچھ رقم بچ جاتی ہے، ان بقایا جات کی ہر ہر جانور میں تعیین کرنا ، اور پھر حصہ داروں تک یہ رقم پہنچانا مشکل ہوتا ہے،ایسی صورت میں یہ رقم حصہ داروں کو واپس کرنا ضروری ہے یا نہیں؟

2. اگر ہم حصہ داروں سے مطلقاً اس طرح بات کریں کہ ہم آپ کے حصے کی قربانی مثلاً دس ہزار روپے میں کروائیں گے ، تو کیا ایسی صورت میں بھی بقایا رقم واپس کرنا ضروری ہے؟

3. اگر واپس کرنا ضروری ہے تو ہمیں اس معاملے کے لیے کوئی ایسا طریقہ بتائیں کہ اس کے ذریعہ کوئی غیر شرعی معاملہ بھی نہ ہو اور ہم بقیہ رقم کے واپس کرنے سے بچ جائیں؟

4. اجتماعی قربانی کے لیے حصہ داروں سے رقم وصول کرنے سے پہلے جانوروں کی خریداری میں ہم مدرسہ کے فنڈ میں سے پیسے ملاسکتے ہیں ؟ بعد میں حصہ داروں سے رقم وصول کرکے مدرسہ کے فنڈ میں جمع کروادیں؟

5. اجتماعی قربانی کے لیے مدرسہ کی زمین استعمال ہوتی ہے، کیا اس کے لیے ہم حصہ داروں سے مناسب کرایہ وصول کرسکتے ہیں ؟ تاکہ یہ کرایہ کی رقم مدرسہ فنڈ میں جمع ہوجائے؟

6. کیا اجتماعی قربانی کرنے کی صورت میں حصہ داروں کو متعین وزن کہ (آپ کے حصے کا وزن اتنا ہوگا) بتانا ضروری ہے؟اگرہم اندازے سے بتائیں کہ تقریباً فی حصہ پندرہ کلو یا بیس کلو ہوگا ، تو ایسی صورت میں کوئی حرج تو نہیں ہے؟

جواب

1، 2، 3. واضح رہے کہ اجتماعی قربانی میں جانور خریدنے کے بعد  حصہ داروں سے لے جانے والی رقم بچ جانے کی صورت میں تمام حصہ داروں کو واپس کرنا ضروری ہے ، ان کی رضامندی و اجازت کے بغیر ادارے کا اپنے پاس رکھنا ناجائز ہے ، لیکن اگر وہ رضامندی  واجازت سے مذکورہ رقم ادارہ کو عطیہ کرنا چاہیں تو درست ہے ، ورنہ رقم کی واپسی لازمی ہوگی ، یا پھر یہ صورت اختیار کی جائے کہ اجتماعی قربانی میں حصہ داروں کو ابتداء ہی میں رقم وصول کرتے وقت بتا دیا جائے ، اور ان کی اجازت حاصل کرلی جائے ، اگر وہ رضامندی سے اجازت دیدیں تو پھر یہ بچ جانے والی رقم عطیہ کہلائے گی۔

4.  ادارے کی جانب سے مدرسہ کے فنڈ کی رقم کو قربانی کے جانور خریدنے کے لیے خرچ کرنا اور پھر حصہ داروں سے رقم وصول ہونے پر واپس جمع کروانا شرعاً ناجائز ہے۔

5. پہلے سے ہی طے کرکے الگ سے حق الخدمت/سروس چار جز کے نام سے ادارہ کے لیے  اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والوں سے طے شدہ اجرت وصول کی جاسکتی ہے ، البتہ اجرت کا شروع سے ہی معین ہونا ضروری ہوگا، غير متعین یا مبہم  اجرت ( جیساکہ  یوں کہنا کہ: قربانی کے بعد جو رقم بچے گی فرد یا ادارہ کی أجرت ہوگی) لینا جائز نہ ہوگا۔

6. ہر شریک کو اس کاحصہ وزن کر کے برابر دینا شرعاً لازم ہے ،منتظمینِ اجتماعی قربانی کرنے والوں کے لیے محض اندازے سے تقسیم کرنے کی اجازت نہیں ہے ،جس گائے میں جو افراد شریک ہوں اس گائے کا گوشت ان ہی  حصہ داروں  کے درمیان برابر تقسیم کرنا شرعاً ضروری ہے ،ایک گائے کے متعین حصہ داروں کے علاوہ دوسری گائے کے شرکاء کو  اس گائے کا گوشت دینا جائز نہیں ہے ،کیوں کے ہر گائے کے متعین حصہ دار اپنے اپنے حصہ کے مالک ہو تے ہیں ،اور مالک کی اجازت کے بغیر اس کےحصہ کاگوشت  کسی اور کو دینا(خواہ وزن کر کے دیا جائے یا وزن کے بغیر دیا جائے )شرعا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لايجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي."

(المقالة الثانیة،المادة:97، ج:1، ص:51، ط:نور محمد كارخانه تجارتِ كتب آرام باغ كراتشي)

"شرح  المجلة لسلیم رستم باز"میں ہے:

"(المال الذي قبضه الوكيل بالبيع والشراء وإيفاء الدين واستيفائه وقبض العين من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده فإذا تلف بلا تعد ولا تقصير لا يلزم الضمان. والمال الذي في يد الرسول من جهة الرسالة أيضا في حكم الوديعة). ضابط: الوكيل أمين على المال الذي في يده كالمستودع."

(كتاب الوكالة، الباب الثالث في بيان أحكام الوكالة، المادة:1463، ج:3، ص:561، ط:دارالجيل)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وشرطها: كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة.وحكمها وقوع الملك في البدلين ساعة فساعة."

(كتاب الاجارة، ج:6 ص:5، ط:سعيد)

"مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر" میں ہے:

"وشرطها ما تقدم من كون الأجرة والمنفعة معلومتين، وحكما وقوع الملك في البدلين ساعة فساعة كما مر.

"وفي المنح: ولا تنعقد الإجارة الطويلة بالتعاطي؛ لأن الأجرة غير معلومة قد يجعلون لكل سنة دانقا وقد يجعلون فلوسا وفي غير الطويلة الإجارة تنعقد بالتعاطي كذا في الخلاصة قلت: مفاد كلامه أن الأجرة إذا كانت معلومة في الإجارة الطويلة تنعقد بالتعاطي انتهى."

(كتاب الإجارة، ج:2، ص:369، ط:دار إحياء التراث العربي)

"درر الحکام في شرح مجلة الأحکام" میں ہے:

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل." 

(الکتاب الحادي عشر الوکالة، الباب الثالث، الفصل االأول، المادة:1467، ج:3، ص:573، ط:دارالجیل)

"الفقه الإسلامي وأدلته"میں ہے:

"تصح الوكالة بأجر، وبغير أجر، لأن النبي صلى الله عليه وسلم كان يبعث عماله لقبض الصدقات، ويجعل لهم عمولة . فإذا تمت الوكالة بأجر، لزم العقد، ويكون للوكيل حكم الأجير، أي أنه يلزم الوكيل بتنفيذ العمل، وليس له التخلي عنه بدون عذر يبيح له ذلك."

(الفصل الرابع : نظریة العقد، الوکالة، الوکالة بأجر، ج:4، ص:151، ط:دارالفکر)

"المبسوط للسرخسي" میں ہے:

"وليس ‌للمودع حق التصرف والاسترباح في الوديعة."

(كتاب الوديعة، ج:11، ص:122، ط:دار المعرفة بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ومقتضى ‌ما ‌قاله أبو السعود أنه يقبل قوله في حق براءة نفسه لا في حق صاحب الوظيفة لأنه أمين فيما في يده فيلزم الضمان في الوقف لأنه عامل له وفيه ضرر بالوقف."

(‌‌كتاب الوقف، مطلب متى ذكر الواقف شرطين متعارضين، ج:4، ص:449، ط:سعيد)

"المحيط البرهاني"میں ہے:

"في ‌أضاحي ‌الزعفراني: ‌اشترى ‌سبعة ‌نفر ‌سبع ‌شياه بينهم أن يضحوا بها بينهم، ولم يسم لكل واحد منهم شاة بعينها فضحوا بها؛ كذلك فالقياس: أن لا يجوز. وفي الاستحسان: يجوز؛ فقوله اشترى سبعة نفر سبع شياه بينهم؛ يحتمل شراء كل شاة بينهم، ويحتمل شراء سبع شياه على أن يكون لكل واحد منهم شاة، ولكن لا يعينها، فإن كان المراد هو الثاني، فما ذكر من الجواب باتفاق الروايات؛ لأن كل واحد منهم يصير مضحياً بشاة كاملة، وإن كان المراد هو الأول فما ذكر من الجواب على إحدى الروايتين، فإن الغنم إذا كانت بين رجلين ضحيا بها ذكر في بعض المواضع: أنه لا يجوز."

(‌‌‌‌كتاب الأضحية، الفصل الثامن فيما يتعلق بالشركة في الضحايا، ص:6، ص:100، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

فتاویٰ شامي ميں هے :

"ويقسم اللحم وزنالا جزافا إلا إذا ضم معه الأكارع أو الجلد)صرفا للجنس لخلاف جنسه."

"(قوله ويقسم اللحم) انظر هل هذه القسمة متعينة أو لا، حتى لو اشترى لنفسه ولزوجته وأولاده الكبار بدنة ولم يقسموها تجزيهم أو لا، والظاهر أنها لا تشترط لأن المقصود منها الإراقة وقد حصلت. وفي فتاوى الخلاصة والفيض: تعليق القسمة على إرادتهم، وهو يؤيد ما سبق غير أنه إذا كان فيهم فقير والباقي أغنياء يتعين عليه أخذ نصيبه ليتصدق به اهـ ط. وحاصله أن المراد بيان شرط القسمة إن فعلت لا أنها شرط، لكن في استثنائه الفقير نظر إذ لا يتعين عليه التصدق كما يأتي، نعم الناذر يتعين عليه فافهم (قوله لا جزافا) لأن القسمة فيها معنى المبادلة، ولو حلل بعضهم بعضا قال في البدائع: أما عدم جواز القسمة مجازفة فلأن فيها معنى التمليك واللحم من أموال الربا فلا يجوز تمليكه مجازفةوأما عدم جواز التحليل فلأن الربا لا يحتمل الحل بالتحليل، ولأنه في معنى الهبة وهبة المشاع فيما يحتمل القسمة لا تصح اهـ وبه ظهر أن عدم الجواز بمعنى أنه لا يصح ولا يحل لفساد المبادلة خلافا لما بحثه في الشرنبلاليةمن أنه فيه بمعنى لا يصح ولا حرمة فيه."

(کتاب الأضحیة، ج:6، ص:317، ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144410101027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں