چند سال قبل ہم چاروں بھائی مل کر قربانی کیا کرتے تھے، جس میں دو سے تین جانور لایا کرتے تھے، لیکن میرے والد صاحب پچھلے کچھ سالوں سے سارے بھائیوں کو جانور لانے سے منع کر رہے ہیں اور اس کے بدلے میں اجتماعی قربانی کرنے کا حکم دیا ہے، اب کسی ویلفیئر کو پیسے دے دیے جاتے ہیں اور کچھ خبر نہیں ہوتی کہ قربانی کب، کہاں اور کس کی ہوئی؟
ہمارا سوال یہ ہے کہ ہم صاحب حیثیت ہونے کے باوجود اس طرح اجتماعی قربانی کر سکتے ہیں یا نہیں؟
جو شخص صاحب نصاب ہو وہ چاہے تو خود جانور خرید کر قربان کرے یا اجتماعی قربانی میں شریک ہوجائے،دونوں صورتوں میں قربانی ہوجاتی ہے، لہذا اجتماعی قربانی میں شریک ہونے سے بھی قربانی ادا ہوجائے گی ۔
تاہم اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ ایسے ادارے میں اجتماعی قربانی کی جائے جو قربانی کی شرائط ملحوظ رکھ کر اجتماعی قربانی کرے، یعنی: صحیح مسلک والے اور قابلِ اعتماد اداروں میں اجتماعی قربانی کے لیے حصہ لیا جائے؛ تاکہ کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہے، تاہم افضل یہ ہے کہ قربانی کا جانور خود لیا جائے، اور کچھ دن محبت سے پالا جائے، اس کی خدمت کی جائے، اور عبادت سمجھ کر خوش دلی سے قربانی ادا کی جائے، اسے بوجھ نہ سمجھا جائے۔نیز کراچی کے دینی مدارس میں بھی نظم ہے وہاں رابطہ کریں ،کسی ویلفیر سے بہتر ہے،دینی مدارس کا عمل بھی بہتر ہےاور ان کا مصرف بھی بہتر ہے درست جگہ خرچ کرتے ہیں۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما قدره فلا يجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن كانت عظيمة سمينة تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما؛ لأن القياس في الإبل والبقر أن لا يجوز فيهما الاشتراك؛ لأن القربة في هذا الباب إراقة الدم وأنها لا تحتمل التجزئة؛ لأنها ذبح واحد وإنما عرفنا جواز ذلك بالخبر فبقي الأمر في الغنم على أصل القياس ... روي عن رسول الله ﷺ «البدنة تجزي عن سبعة والبقرة تجزي عن سبعة» وعن جابر رضی اللہ عنه قال: «نحرنا مع رسول الله ﷺ البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة» ولأن القياس يأبى جوازها عن أكثر من واحد لما ذكرنا أن القربة في الذبح وأنه فعل واحد لا يتجزأ؛ لكنا تركنا القياس بالخبر المقتضي للجواز عن سبعة مطلقا فيعمل بالقياس فيما وراءه؛ لأن البقرة بمنزلة سبع شياه."
(كتاب التضحية، فصل في محل إقامة الواجب في الأضحية، ج: 5، ص70 - ط: دار الكتب العلمية)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے :
"والبقر والبعير يجزي عن سبعة إذا كانوا يريدون به وجه الله تعالى، والتقدير بالسبع يمنع الزيادة، ولا يمنع النقصان، كذا في الخلاصة".
(کتاب الاضحیة ، الباب الثامن فیما یتعلق بالشرکة فی الضحایا ، جلد : 5 ، صفحه : 304 ، طبع : دارالفکر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144611100577
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن