بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اجتماعی قربانی کرنے والوں کی حیثیت


سوال

اجتماعی قربانی کے منتظمین وکیل ہوتے ہیں یا اس کے علاوہ بھی منتظمین کی کوئی نسبت ہوتی ہے؟

جواب

اجتماعی قربانی کرنے والے منتظمین اپنی حیثیت اپنی مرضی سے خود متعین کر سکتے ہیں اور  ممکنہ طور پر اس کی چند صورتیں ہوسکتی ہیں اور اس حیثیت کے فرق کی وجہ سے اُن کا منافع رکھنے یا نہ رکھنے کے حکم میں فرق آئے گا۔

1۔۔     خرید وفروخت کی صورت:

          اس کا طریقہ یہ ہے کہ اجتماعی قربانی کا اہتمام کرنے والے اپنے  پیسوں سے قربانی کا  جانور خرید لیں، اور اس پر خود یا اپنے وکیل کے ذریعے قبضہ کرلیں، اس کے بعد جو شخص  اجتماعی قربانی میں حصہ لینا چاہے اس  کو  مکمل جانور یا مطلوبہ حصے (مثلاً ایک، دو  یا تین وغیرہ)  اپنا منافع رکھ کرفروخت کردیں، اجتماعی قربانی والے شخص کو بتادیں یا رسید پر لکھ دیں کہ فی حصہ اتنے میں فروخت کیا جاتا ہے،   پھر ان کی طرف سے نائب بن کر ان کی اجازت سے  قربانی کی جائے  اور    قربانی کے بعد خریدار کو  گائے میں سے اس کے حصہ کے بقدر دے دیا جائے۔

2۔۔   وعدۂ بیع کی صورت:

          اس کا طریقہ یہ ہے کہ مثلاً اجتماعی قربانی کرنے والوں کے پاس فی الحال جانور خریدنے کا انتظام نہیں  تو وہ  جانور کے بیوپاریوں سے قیمت طے کرلیں اور ان سے وعدہ بیع کرلیں، پھر  اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والوں سے وعدہ بیع کرلیں کہ ہم آپ کو ایک حصہ اتنے میں دیں گے (اور اس میں اپنا منافع رکھ لیں جیسا کہ پہلی صورت میں تھا) اور وعدہ بیع کی مد میں پیشگی ان سے رقم لے لیں، پھر آخر میں جانور خرید لیں  اور جانور خریدنے کے بعد  ان کا حصہ ان کی طرف سے ذبح کرلیا جائے۔

3۔۔ وکالت:

          اجتماعی قربانی کرنے والوں کی طرف سے جانور خریدا جائے، اور اس صورت میں جو جو اخراجات آتے  ہیں وہ سب بھی ان کو بتا کر ان سے لے لیے جائیں، قربانی کا جانور خریدنے اور اس پرآنے والے تمام اخراجات  کے بعد جو رقم  بچ جائے  وہ حصہ داروں کو واپس کی جائے، اس رقم کو ان کی اجازت  کے بغیر  اپنے پاس رکھ لینا  بالکل ناجائز ہے، ہاں اگر وہ خود ہی خوش دلی  سے  باقی  بچ جانے والی  رقم ادارہ  کو عطیہ کردیں   تو اس صورت میں یہ  رقم لینا درست ہے ۔

          وکالت والی صورت میں پہلے سے ہی طے کرکے الگ سے حق الخدمت/سروس چار جز کے نام سے اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والوں سے طے شدہ اجرت وصول کی جاسکتی ہے۔ فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144111201470

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں