بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 محرم 1447ھ 04 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

اجتماعی قربانی میں سے بقیہ رقم اجازت سے مدرسہ میں ڈالنا


سوال

ہم ایک جگہ ملازم ہیں، جو منتظم اعلی ہیں وہ ادارے میں اجتماعی قربانی کرواتے ہیں، اس میں ہمارے ذمے یہ کام لگایا ہے کہ جو حصے کے لیے آئے گا اس کو حصے کی رسید کاٹ کر دو اور پیسے وصول کر لو، پھر اس میں سے کچھ پیسے قصائی وغیرہ کو دے دیتے ہیں اور اجتماعی قربانی کا پورا نظم بھی ہم سنبھالتے ہیں، جس کے بدلے ہمیں کچھ اجرت ملتی ہے، ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جتنا فی حصہ رقم مقرر کی گئی ہے اس سے خرچہ کم ہوتا ہے اور بقیہ پیسوں کے بارے میں حصہ دار کو بتا دیا جاتا ہے کہ آپ کی رقم بچ گئی ہے، اگر آپ لینا چاہو تو لے لو، ورنہ مدرسہ کے لیے چھوڑ دو، اگر وہ لے لیتا ہے تو اچھی بات، اگر چھوڑ دیتا ہے تو مدرسہ کے فنڈ میں جمع کر دی جاتی ہے۔

اس میں ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ کیا ہم کو اس کا گناہ ہوگا؟ چوں کہ ہم اس ادارے میں ملازم ہیں، انکار کی صورت میں ملازمت سے فارغ کیے جانے کا اندیشہ ہے تو اس صورت میں ہمارے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں واضح طور پر اگر ادارے کی طرف سے حصے داروں کو بتا دیا جاتا ہے کہ آپ کی جمع کردہ رقم میں سے تمام اخراجات کی ادائیگی کے بعد اتنی رقم بچ گئی ہے اگر آپ چاہیں تو لے لیں، ورنہ مدر سے کے مصارف کے لیے چھوڑ دیں، پھر اگر وہ اس رقم کو مدرسے کے مصارف کے لیے چھوڑ دیتا ہے اور آپ کا ادارہ اس رقم کو مدرسے کے مصارف میں خرچ کرتا ہے تو یہ جائز ہے، اس میں شرعا کوئی حرج نہیں اور آپ کو بھی اس میں کوئی گناہ نہیں ہوگا، اس طرح بچی ہوئی رقم مدرسہ میں خرچ کرنا شرعاً امانت میں خیانت نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے :

"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا ‌بطيب ‌نفس منه» . رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى".

(مشکوۃ المصابیح ، كتاب البيوع ، باب الغصب ، 889/2 ، المكتب الإسلامي  )

الدرالمختار میں ہے :

"لا یجوز التصرف في مال غیرہ بلا إذنہ ".

(کتاب الغصب ، مطلب فیما یجوز من التصرف بمال الغیر ، 200/6 ، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611102288

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں