بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اجتماعی قربانی میں گوشت وزن کرکے تقسیم کرنا ضروری ہے


سوال

1۔ کیا  اجتماعی قربانی میں ہر ہر جانور میں الگ سے حصے متعین کرنا ضروری ہے ؟

2۔ بسا اوقات انتظامیہ حصے متعین نہیں کرتی بس جانوروں کو ذبح کر دیا جاتا ہے اور پھر جو حصہ دار اس وقت موجود ہوتا ہے اسے وزن کر کے گوشت دے دیا جاتا ہے جبکہ حصہ دار اس پر راضی بھی ہوتے ہیں۔ تو کیا ایسی صورت میں قربانی درست ہوگی یا پھر حصے متعین کرنا اور پھر اسی حصہ دار کو گوشت دینا ضروری ہے ؟

بسا اوقات کچھ حصہ دار پہلے آ جاتے ہیں اور کچھ دیر سے۔ اس صورت میں دو خرابیاں درپیش ہوتی ہیں پہلی تو یہ کہ جس کا حصہ بعد والے جانور میں ہوتا ہے وہ پہلے آ کے سر پہ کھڑا رہتا ہے اور انتظار کی مشقت برداشت کرتا ہے، دوسری خرابی یہ کہ جس کا حصہ تیار پڑا ہوتا ہے وہ نہ آیا ہو تو گوشت خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے لہذا ان خرابیوں سے بچنے کیلئے جو حصہ دار موجود ہوتا ہے اسے گوشت دے دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے راہنمائی فرما دیں۔

جواب

1۔ جی ہاں اجتماعی قربانی میں ہر ہر جانور معین کرنا ضروری ہے۔ ہر  جانور ذبح کرنے سے قبل اس میں شریک تمام شرکاء  کی تعیین  کرکے پھر ذبح کرنے کا معمول رکھا جائے، اور ہر حصہ دار کو اس کے جانور کا حصہ دیا جائے، ایک کے جانور کا حصہ دوسرے آدمی کو نہ دیا جائے۔

رد المحتار علي الدر المختارمیں ہے: 

" ولو اشترك سبعة في سبع شياه لا يجزيهم قياسا، لأن كل شاة بينهم علي سبعة اسهم، و في الاستحسان يجزيهم، و كذا اثنان في شاتين."

( كتاب الأضحية، ٦ / ٣١٦، ط: دار الفكر) 

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائعمیں ہے:

" (ومنها) أن تكون نية الأضحية مقارنة للتضحية كما في باب الصلاة؛ لأن النية معتبرة في الأصل فلا يسقط اعتبار القران إلا لضرورة كما في باب الصوم؛ لتعذر قران النية لوقت الشروع لما فيه من الحرج.

(ومنها) إذن صاحب الأضحية بالذبح إما نصا أو دلالة إذا كان الذابح غيره، فإن لم يوجد لا يجوز؛ لأن الأصل فيما يعمله الإنسان أن يقع للعامل، وإنما يقع لغيره بإذنه وأمره فإذا لم يوجد لا يقع له."

( كتاب التضحية، فصل في شرائط جواز إقامة الواجب في الأضحية، ٥ / ٧٢ - ٧٣، ط: دار الكتب العلمية )

المحيط البرهاني في الفقه النعمانيمیں ہے:

" في أضاحي الزعفراني: اشترى سبعة نفر سبع شياه بينهم أن يضحوا بها بينهم، ولم يسم لكل واحد منهم شاة بعينها فضحوا بها؛ كذلك فالقياس: أن لا يجوز.

وفي الاستحسان: يجوز؛ فقوله اشترى سبعة نفر سبع شياه بينهم؛ يحتمل شراء كل شاة بينهم، ويحتمل شراء سبع شياه على أن يكون لكل واحد منهم شاة، ولكن لا يعينها، فإن كان المراد هو الثاني، فما ذكر من الجواب باتفاق الروايات؛ لأن كل واحد منهم يصير مضحيا بشاة كاملة، وإن كان المراد هو الأول فما ذكر من الجواب على إحدى الروايتين، فإن الغنم إذا كانت بين رجلين ضحيا بها ذكر في بعض المواضع: أنه لا يجوز."

( كتاب الأضحية، الفصل الثامن فيما يتعلق بالشركة في الضحايا، ٦ / ١٠٠، ط: دار الكتب العلمية بيروت )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو اشترى عشرة عشر أغنام بينهم فضحى كل واحد واحدة جاز، ويقسم اللحم بينهم بالوزن، وإن اقتسموا مجازفة يجوز إذا كان أخذ كل واحد شيئا من الأكارع أو الرأس أو الجلد، وكذا لو اختلطت الغنم فضحى كل واحد واحدة ورضوا بذلك جاز، كذا في خزانة المفتين."

(كتاب الأضحية، الباب الثامن فيما يتعلق بالشركة في الضحايا، ٥ / ٣٠٥، ط: دارالفكر)

رد المحتار علی الدر المختارمیں ہے:

" وشرعا (ذبح حيوان مخصوص بنية القربة في وقت مخصوص.

(قوله مخصوص) أي نوعا وسنا ط (قوله بنية القربة) أي المعهودة وهي التضحية. قال في البدائع: فلا تجزئ التضحية بدونها لأن الذبح قد يكون للحم وقد يكون للقربة، والفعل لا يقع قربة بدون النية، وللقربة جهات من المتعة والقران والإحصار وغيره فلا تتعين الأضحية إلا بنيتها، ولا يشترط أن يقول بلسانه ما نوى بقلبه كما في الصلاة اهـ."

( كتاب الأضحية، ٦ / ٣١٢، ط: دار الفكر )

2۔ واضح رہے کہ ہر شریک کو  اس کا حصہ وزن کرکے برابر دینا شرعا لازم  ہے، پس منتظمین  کے لیے محض اندازے سے گوشت تقسیم کرنے کی اجازت نہیں،  اسی طرح  جس گائے میں جو افراد شریک ہوں، ان گائے کا گوشت ان ہی حصہ داروں کے درمیان تقسیم کرنا شرعا ضروری ہے،  ایک گائے کے متعین حصہ داروں کے علاوہ دوسری گائے کے شرکاء  کو  اس گائے کا گوشت دینا جائز نہیں،  کیوں ہر گائے کے متعین حصہ دار اپنے اپنے حصہ کے مالک ہوتے  ہیں، اور مالک  کی اجازت کے بغیر اس کا گوشت کسی اور کو دینا( خواہ وزن کر کے دیا جائے، یا وزن کے بغیر  دیا جائے)شرعا جائز نہیں ۔ لہذا انتظامیہ کو چاہیئے کہ ہر شریک کو حصہ وصولی کے لیے  متعین وقت دے دے، تاکہ کسی کو انتظار نہ کرنا پڑے،  اور وقت مقررہ سے قبل اگر کوئی شریک گوشت وصول کرنے آجائے، تو اسے انتظار کرنے دیا جائے، یا وقت مقرر پر دوبارہ  آنے  کا کہہ دیا جائے، ورنہ پہلے سے حصہ داروں سے اجازت لے لی جائے  کہ وقت مقررہ پر نہ آنے کی صورت میں گوشت کو لوگوں میں تقسیم کردیا جائے گا، تاکہ گوشت خراب نہ ہوجائے۔

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

"ويقسم اللحم وزنا لا جزافا إلا إذا ضم معه الأكارع أو الجلد) صرفا للجنس لخلاف جنسه.

(قوله ويقسم اللحم) انظر هل هذه القسمة متعينة أو لا، حتى لو اشترى لنفسه ولزوجته وأولاده الكبار بدنة ولم يقسموها تجزيهم أو لا، والظاهر أنها لا تشترط لأن المقصود منها الإراقة وقد حصلت. وفي فتاوى الخلاصة والفيض: تعليق القسمة على إرادتهم، وهو يؤيد ما سبق غير أنه إذا كان فيهم فقير والباقي أغنياء يتعين عليه أخذ نصيبه ليتصدق به اهـ ط. وحاصله أن المراد بيان شرط القسمة إن فعلت لا أنها شرط، لكن في استثنائه الفقير نظر إذ لا يتعين عليه التصدق كما يأتي، نعم الناذر يتعين عليه فافهم (قوله لا جزافا) لأن القسمة فيها معنى المبادلة، ولو حلل بعضهم بعضا قال في البدائع: أما عدم جواز القسمة مجازفة فلأن فيها معنى التمليك واللحم من أموال الربا فلا يجوز تمليكه مجازفة.

وأما عدم جواز التحليل فلأن الربا لا يحتمل الحل بالتحليل، ولأنه في معنى الهبة وهبة المشاع فيما يحتمل القسمة لا تصح اهـ وبه ظهر أن عدم الجواز بمعنى أنه لا يصح ولا يحل لفساد المبادلة خلافا لما بحثه في الشرنبلالية من أنه فيه بمعنى لا يصح ولا حرمة فيه (قوله إلا إذا ضم معه إلخ) بأن يكون مع أحدهما بعض اللحم مع الأكارع ومع الآخر البعض مع البعض مع الجلد عناية ."

( كتاب الأضحية، ٦ / ٣١٧ - ٣١٨، ط: دار الفكر )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100223

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں