بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اجتماعی دعوت سے کیا مراد ہے؟


سوال

اجتماعی دعوت سے کیا مراد ہے؟

جواب

دعوت الی اللہ کی دو صورتیں  ہوتی ہیں، ایک صورت انفرادی  ہوتی ہے جبکہ دوسری صورت اجتماعی ہوتی ہے، انفرادی دعوت کا مطلب یہ ہے کہ فردا فردا دعوت دی جائے، جبکہ اجتماعی دعوت کا مطلب یہ ہے کہ مجمع سے عمومی انداز میں دعوت الی اللہ کے حوالہ سے بات کی جائے، جیسا کہ تمام انبیاء  علیہم السلام  کا طریقہ رہا ہے کہ وہ  بسا اوقات فردا فردا دعوت دیا کرتے تھے،  تو کبھی مجمع کو دعوت دیا کرتے تھے۔

سورہ نوح میں ہے:

"قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا (5) فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلَّا فِرَارًا (6) وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا (7) ثُمَّ إِنِّي دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا (8) ثُمَّ إِنِّي أَعْلَنتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْرَارًا (9)."

ترجمہ: " (پھر) نوح - علیہ السلام- نے (اللہ تعالیٰ سے) کہا کہ: میرے پروردگار ! میں نے اپنی قوم کو رات دن (حق کی) دعوت دی ہے۔ 

لیکن میری دعوت کا اس کے سوا کوئی نتیجہ نہیں ہوا کہ وہ اور زیادہ بھاگنے لگے۔

اور میں نے جب بھی انہیں دعوت دی، تاکہ آپ ان کی مغفرت فرمائیں تو انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں دے لیں، اپنے کپڑے اپنے ا وپر لپیٹ لیے، اپنی بات پر اڑ رہے، اور تکبر ہی تکبر کا مظاہرہ کرتے رہے۔

پھر میں نے انہیں پکار پکار کر دعوت دی۔

پھر میں نے ان سے علانیہ بھی بات کی، اور چپکے چپکے بھی سمجھایا۔"

اجتماعی دعوت سے سائل کی مراد اگر چند افراد کا پیسے جمع کرکے اجتماعی طور پر ضیافت کا اہتمام کرنا ہو، تو اس کے جائز ہونے کی شرائط  میں سے ایک شرط یہ ہے کہ تمام شرکاء کی رقم  حلال ہو، حرام آمدنی والے شخص کی رقم شامل کرنا جائز نہ ہوگا۔

اور اجتماعی دعوت سے مراد   اگر مرد و زن کی مخلوط دعوت کے حوالے سے دریافت کرنا  ہو،  تو  شرعا نا محرم  مرد و زن کا اختلاط ، اور پردے کے بغیر مرد و زن کا اجتماع  کرنا شرعا ناجائز ہے،  یہاں تک کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے با جماعت نماز کی ادائیگی  میں بھی مرد و زن کو ایک صف میں کھڑے ہونے سے منع فرمایا  ہے، اور خواتین کے صفیں مردوں  کی صفوں سے پیچھے الگ بنوائی ہیں، لہذا جب نماز میں مرد و زن کے اختلاط کی شرعا اجازت نہیں، تو نماز کے علاوہ دیگر اجتماعات میں مرد و زن کے اجتماع بطريق اولی ممنوع ہوگا۔

البتہ سوال کا مقصد  اگر کچھ اور ہو تو مقصد سوال واضح کرکے سوال دوبارہ ارسال کردیا جائے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311102015

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں