بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اجتہاد میں غلطی ہوجانے کی صورت میں مقلد کے لیے حکم


سوال

میں نے حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کی تحریر "تقلید کی شرعی حیثیت"  میں پڑھا  ہے کہ  اگر کسی امام سے اجتہادی غلطی ہوئی ہے تو اللہ کے نزدیک وہ نہ صرف معاف ہے؛ بلکہ اپنی کوشش صرف کرنے کی وجہ سے مجتہد کو ثواب ہوگا، بےشک انسان تھے،  غلطی ہو سکتی ہے، ہم اپنے امام کے ہر مسئلہ پر اعتماد کرکے عمل کرتے ہیں، بالفرض اُن سے کوئی اجتہادی غلطی ہوئی تو اللہ اُن کو معاف کریں گے اور اجر بھی دیں گے، لیکن جو لوگ اُس مسئلہ پر عمل کریں گے اور کرتے ہیں اُن کا بھی معاف ہے یا نہیں؟ میں حنفی مسلک ہوں، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ پر اللہ کی رحمت ہو۔اُن کے درجات بلند ہوں آمین۔

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی امام سے اجتہادی غلطی ہو جائے تو وہ  نہ صرف معاف ہے؛ بلکہ اس کو اجتہاد کی وجہ سے ثواب بھی ملے گا ،نیز اجتہادی اختلافی مسائل میں  غلطی کا جاننا اس دنیا میں ممکن نہیں؛ بلکہ اس کا پتہ آخرت میں چلے گا کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہرمسئلہ کا ایک ہی حکم ہے اور وہ اللہ کے علم میں ہے، اب جس مجتہد کا اجتہاد اس حکم کے مطابق ہوگا وہ مصیب (درستی کو پہنچنے والا) کہلائے گا اور جس مجتہد کا اجتہاد اس حکم كے مطابق نہ ہوگا وہ مخطی (غلطی کرنے والا) کہلائے گا؛ اس لیے کسی امام کے ماننے والے کا اپنے  مجتہد کے قول کو قطعی طور پر صحیح اور دوسرے امام  کے قول کو قطعی طور پر غلط کہنا صحیح نہیں اور نہ ہی کسی مقلد  کو اس مسئلہ  میں پڑنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اگر اس کے امام سے خدانخواستہ اجتہادی غلطی ہوبھی گئی ہو تو بھی اللہ تعالیٰ اس کو ثواب سے محروم نہیں فرمائیں گے اور  وه  شخص اس مسئلہ پر عمل کر نے کی وجہ سے  عنداللہ وہ معذور شمار ہوگا ،اور اس پر اس کو کوئی گناہ نہیں ملے گا، بلکہ عمل پر اجر ملے گا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"فلا نجزم ‌بأن ‌مذهبنا ‌صواب ألبتة ولا بأن مذهب مخالفنا خطأ ألبتة، بناء على المختار من أن حكم الله في كل مسألة واحد معين وجب طلبه. فمن أصابه فهو المصيب ومن لا فهو المخطئ. ونقل عن الأئمة الأربعة: ثم المختار أن المخطئ مأجور كما في التحرير وشرحه۔"

(مقدمۃ،ج:۱،ص:۴۸،سعید)

عقد الجید فی احکام الاجتہاد والتقلید میں ہے :

"إعلم أن العامي الصرف ليس له مذهب وإنما مذهبه فتوى المفتي، في البحر الرائق: لو احتجم أو اغتاب فظن أنه يفطره ثم أكل إن لم يستفت فقيها ولا بلغه الخبر فعليه الكفارة؛ لأنه مجرد جهل وأنه ليس بعذر في دار الإسلام وإن استفتى فقيها فأفتاه لا كفارة عليه؛ لأن العامي يجب عليه تقليد العالم إذا كان يعتمد على فتواه فكان معذورا فيما صنع وإن كان المفتي مخطئا فيما أفتى۔"

(فصل في العامي،ص:۳۰،المطبعۃ السلفیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100775

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں