اجتماعی طور پر دعا کرنا یہ جائزہے؟
جن مواقع پر آپ ﷺ سے اجتماعی طور پر دعا کرنا ثابت ہو مثلًا نمازوں کے بعد، کسوف کے موقع، تدفین کے بعد وغیرہ، ان مواقع پر اجتماعی دعا کرنا جائز ہے، اور جن مواقع پر اجتماعی دعا کرنا منقول نہ ہو، لیکن اس کی ممانعت بھی نہ ہو، تو وہاں اجتماعی دعا کو لازم سمجھے بغیر موقع محل کی مناسبت سے اجتماعی طور پر دعا کرلی جائے تو یہ بھی منع نہیں ہے، بلكه مجمع ميں موجود نيك لوگوں كي وسيله سے دعا كي قبوليت كا امكان بڑھ جاتا ہے اور جہاں اجتماعی دعا کرنا ثابت نہ ہو، وہاں اس کو لازم اور ضروری سمجھ کر اجتماعی دعا کا التزام کرنا اور نہ کرنے والوں پر نکیر کرنا جائز نہیں ہے۔
الاعتصام للشاطبی میں ہے:
" ومنها: (ای من البدع) التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته".
(الاعتصام للشاطبي (ص: 53) الباب الأول تعريف البدع وبيان معناها وما اشتق منه لفظا، ط: دار ابن عفان، السعودية)
مرقاة المفاتیح میں ہے:
" قال الطيبي: وفيه أن من أصر على أمر مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال ، فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟
(3/31، کتاب الصلوٰۃ، الفصل الاول، ط؛ رشیدیة)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144211201155
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن