بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اجتماعی قربانی سے متعلق شرائط


سوال

 ہمارے ادارے میں اجتماعی قربانی کا اہتمام ہوتا ہے،  اس کے لیے ہم نے کچھ شرائط طے کی ہیں، جو  بکنگ رسید پر چھپوانے کا ارادہ رکھتے ہیں ،آپ اس کو ملاحظہ فرما کر اس کی نمبر وارتصحیح فرمادیں اور جو اس میں غیر شرعی ہو اس کی وضاحت فرما دیں اورمزید کچھ آپ بہتر سمجھیں تو اس کا اضافہ فرمادیں۔(جزاکم اللہ فی الدارین)      شرائط درج ذیل ہیں:

اجتماعی قربانی کے شرکاء سے التماس ہےکہ:

1۔  جن حضرات کی آمدنی بینک انویسمینٹ،بینک ملازمت،انشورنس،بیمہ پالیسی ہولڈراوردوسرے ناجائز کاروبارسے ہو،وہ اجتماعی قربانی میں ہرگزحصہ نہ لیں۔

     2۔ وصول شدہ رقم میں پندرہ فیصد حق خدمت ہے۔  

 3۔گوشت کی وصولی کے لیے رسید کو لانا ضروری ہے۔ 

   4۔گوشت کی وصولی کے لیے مقررہ وقت کے دو گھنٹوں کے اندر آکرگوشت وصول فرمالیں، نیز میں ادارے کو اس بات کی اجازت دیتا ہوں کہ اگر میں کسی بھی وجہ سے مقررہ وقت پر گوشت لینے نہ آسکوں تو وہ میرے حصے کے گوشت کو میری طرف سے مستحق افراد میں تقسیم کردیں۔ (کیوں کہ زیادہ دیر تک گوشت رکھا جائے تو خراب ہو جاتا ہے)

   5۔بعض حضرات کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کو گوشت کے بڑے ٹکڑے یابہتر گوشت مل جائے اس سلسلے میں عرض ہے کہ اگر آپ کسی گائے میں حصہ دار ہیں تو شریعت کے حکم کے مطابق گوشت کے ٹکڑے کرنے کے بعدگوشت برابر تقسیم کیا جاتا ہے کسی کو گوشت اور کسی کو ہڈیاں دینا جائز نہیں۔    

 6۔ہر حصہ دار کو اس کا حصہ (ان شاء اللہ) شرعی اعتبار سے تقسیم کر کے دیا جائے گا۔پھر بھی انسان ہونے کے ناطے کوئی غلطی ہوجائے تو اسے معاف کر دیں۔

    7۔بکنگ رسید پر حصہ وصولی کا متوقع وقت دیا جاتا ہے،اس میں کسی قسم کی تاخیر ہونے کی صورت میں آپ کا خصوصی تعاون درکار ہوگا۔ 

  8۔اگر آپ اپنا حصہ طلبہ یا مدرسہ کے لئے دینا چاہتے ہیں تو اس کی وضاحت رقم جمع کراتے وقت فرما دیں۔  

 9۔میں ادارے کی انتظامیہ کواس بات کا اختیار دیتا ہوں کہ قربانی کے لیے جانور کی خریداری سے لے کر گوشت کی تقسیم تک کے تمام مراحل کا انتظام کرے۔    

10۔ میں اس بات کی اجازت بھی دیتا ہوں کہ جانور کی کھال مدرسہ ”جامعہ  مدنیہ“میں عطیہ کر دیں۔    

11۔نیز میں اس بات کی اجازت بھی دیتا ہوں کہ جانور کی سری،زبان،اوجھڑی،پائے،اضافی چربی،آنتیں،دُم اور دیگر اشیاء وغیرہ کے بارے میں ادارہ جو مناسب سمجھے وہ کرے۔             

جواب

واضح رہے کہ    اجتماعی قربانی کرنےوالا ادارہ، اگر   اجتماعی قربانی کرنے والوں کی طرف سے جانور خرید کر ان کی طرف سے ذبح کرتا ہو تو ایسی صورت میں ادارہ  کی حیثیت ”وکیل“ اور ”امین “ کی ہے، اس صورت میں ضابطہ یہ ہے کہ   قربانی کے حصہ اور انتظامات پر  جو اخراجات آئیں، وہ  اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والوں کو بتاکر ان سے لینا جائز ہے، قربانی کا جانور خریدنے اور اس پرآنے والے تمام اخراجات  کے بعد جو رقم  بچ جائے  وہ حصہ داروں کو واپس کرنا ضروری ہے، اس رقم کو ان کی اجازت  کے بغیر  اپنے پاس رکھنا ناجائز ہے، ہاں اگر وہ خود ہی خوش دلی  سے  باقی  بچ جانے والی  رقم ادارہ  کو عطیہ کردیں   تو اس صورت میں یہ  رقم لینا درست ہے ۔نیز اس صورت میں  پہلے سے ہی طے کرکے  حق الخدمت/سروس چار جز کے نام سے اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والوں سے طے شدہ اجرت وصول کی جاسکتی ہے۔ 

مذکورہ تفصیل کے بعد  صورت مسئولہ میں مذکورہ ادارہ اپنی رسید بک میں جو سوال میں ذکر کردہ شرائط چھپوانا چاہتا ہے، ان شرائط کو  معاہدہ کی حیثیت دے کر حصہ دار سے اس پر دستخط لے لے تو اس صورت میں مذکورہ تمام  ہدایات و ضوابط پر عمل کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔

البتہ شرط  نمبر :1 ، میں  ناجائز آمدنی کے ساتھ، اس کا بھی اضافہ کردیا جائے کہ کسی بھی قسم کے حرام مال  سے اجتماعی قربانی  میں  حصہ نہ لیا جائے، تاکہ اس میں مزید عموم ہوجائے۔اور یہ کہ  اگر ایسے افراد کو حصہ لینا ہے تو حلال رقم سے لیں، اور اگر حلال رقم نہیں ہے تو کسی سے حلال رقم قرضہ لے کر حصہ ملالیں۔

اسی طرح شرط نمبر :2 ،میں ہے کہ : ”وصول شدہ رقم میں پندرہ فیصد حق خدمت ہے“ یہ نہ لکھیں، بلکہ اجرت کی رقم متعین کرکے لکھ دیں،  اس صورت میں طے شدہ اجرت کے علاوہ   اگر کچھ رقم مزید  بچ جائے تو حصہ داروں  کو واپس کرنا لازم ہے،  شرکا کی اجازت کے بغیر بچی ہوئی رقم رکھنا جائز نہیں،ہاں اگر وہ بعد میں  خوش دلی سے وہ رقم ادارے کو عطیہ  کردیں تو ادارے کے لیے اس کو لینا درست ہے۔

شرط نمبر 4 میں اگر حصہ دار کی طرف سے  اس کی اجازت ہو   اور وہ اس کو قبول کرتا   ہو کہ :” میں کسی بھی وجہ سے مقررہ وقت پر گوشت لینے نہ آسکوں تو وہ میرے حصے کے گوشت کو میری طرف سے مستحق افراد میں تقسیم کردیں“ تو اس صورت میں اس پر عمل جائز ہوگا،  اس کے لیے شروع میں یہ شرائط لکھ کر معاہدہ پر دستخط کرانا کافی ہوگا، نیز یہ کہ اس میں  ”مستحق افراد“ کے بجائے  صرف ”لوگوں“ لکھ دیا جائے، تاکہ قربانی کا گوشت امیر اور غریب دونوں میں تقسیم کیا جاسکے۔

لیکن   اگر حصہ دار نے اس کو باقاعدہ قبول کرکے اجازت نہ دی ہو تو اس صورت میں  ادارہ اگر کسی ضرورت مند کو  اس کا گوشت دے گا تو  اس کے بعد حصہ دار کو بتانا ضروری ہوگا کہ آپ کا گوشت صدقہ کر دیا گیا ،اگر وہ قبول کر لے تو ٹھیک ہے ورنہ ادارہ  اس کا ضامن ہوگا ،اور اگر حصہ دار کے تاخیر کے آنے کی وجہ سے ادارے کی طرف سے تمام تر احتیاط کے باوجود گوشت خراب ہو گیا تو ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔  

شرط نمبر 10، اور 11 میں بھی صراحتاً اجازت ہو یا ابتداء میں معاہدہ کرلیا ہوتو اس پر عمل کرنا جائز ہے۔

مشكاة المصابيح  میں ہے:

"و عن عمرو بن عوف المزني عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الصلح جائز بين المسلمين إلا صلحًا حرّم حلالًا أو أحلّ حرامًا و المسلمون على شروطهم إلا شرطًا حرم حلالًا أو أحلّ حرامًا». رواه الترمذي و ابن ماجه و أبو داود و انتهت روايته عند قوله: «شروطهم»."

(1/253، باب الإفلاس و الإنظار، الفصل الثاني، ط؛ قدیمی)

درر الحکام في شرح مجلة الأحکام میں ہے:

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل." 

(3/ 573 ،الکتاب الحادي عشر الوکالة، الباب الثالث، الفصل االأول، المادة:1467، ط:دارالجیل)

الفقہ الإسلامي وأدلتہ میں ہے:

"تصح الوكالة بأجر، وبغير أجر، لأن النبي صلى الله عليه وسلم كان يبعث عماله لقبض الصدقات، ويجعل لهم عمولة . فإذا تمت الوكالة بأجر، لزم العقد، ويكون للوكيل حكم الأجير، أي أنه يلزم الوكيل بتنفيذ العمل، وليس له التخلي عنه بدون عذر يبيح له ذلك."

(4/151، الفصل الرابع : نظریة العقد، الوکالة، الوکالة باجر، ط: دارالفکر)

الدر المحتار  میں ہے:

"(فلا تضمن بالهلاك) إلا إذا كانت الوديعة بأجر أشباه معزيا للزيلعي (مطلقا) سواء أمكن التحرز أم لا، هلك معها شيء أم لا لحديث الدارقطني: «ليس على المستودع غير المغل ضمان». (واشتراط الضمان على الأمين) كالحمامي والخاني (باطل به يفتى) خلاصة وصدر الشريعة"

(5/ 664،کتاب الایداع، ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144310101042

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں