بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اجتماعی طور پرایصال ثواب کے لیے سورہ فاتحہ اورسورہ اخلاص کے اہتمام کا حکم


سوال

ہمارے محلے کی مسجد کے امام  صاحب نے آج کل ایک معمول شروع کیا ہے کہ وہ جمعہ کی نماز کے بعد ایصالِ  ثواب کی نیت سے فاتحہ اور سورۃ اخلاص کے لیے چند منٹ مجموعی طور پر بیٹھتے ہیں پھر دعا ہوتی ہے،  ایک تو بہت سے نمازی دعا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں،  دوسرا کیا یہ مستقبل میں بدعت بننے کا خدشہ ہے،  اس بارے میں رہنمائی فرما دیں:  کیا ان کو یہ عمل جاری رکھنا چاہیے یا چھوڈ دینا چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ ایصالِ ثواب کا کوئی خاص طریقہ شریعت میں متعین نہیں ہے ، نہ اس میں کسی دن کی قید ہے، نہ کسی خاص ذکر کی پابندی ہے اور نہ قرآنِ کریم کو ختم کرنا ضروری ہے؛ بلکہ بلاتعیین جو نفلی عبادت بدنی و مالی بہ سہولت ہوسکے اس کا ثواب میت کو پہنچایا جاسکتا ہے ، نفلی اعمال کا ثواب مُردہ اور زندہ دونوں کو بخشا جاسکتا ہے، اہلِ سنت و الجماعت کے نزدیک یہ ثواب ان کو بلاشک و شبہ پہنچتا ہے۔ 

 صورت مسئولہ میں ہر  جمعہ کی نماز کے بعد  پابندی کے ساتھ اہتمام کرتے ہوئے ایصال ثواب کے لیے اجتماعی طور پر سورہِ فاتحہ اور سورہِ  اخلاص کا اہتمام کرنا درست نہیں ہے، یہی چیزیں آگے چل کر  بدعت  کی راہ اختیار کر لیتی ہیں۔ لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔

البحر الرائق   شرح کنز الدقائق میں ہے:

"والأصل فيه أن الإنسان له أن يجعل ‌ثواب ‌عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو قراءة قرآن أو ذكرا أو طوافا أو حجا أو عمرة أو غير ذلك عند أصحابنا للكتاب والسنة أما الكتاب فلقوله تعالى {وقل ربي ارحمهما كما ربياني صغيرا} [الإسراء: 24] ، وإخباره تعالى عن ملائكته بقوله {ويستغفرون للذين آمنوا} [غافر: 7] وساق عبارتهم بقوله تعالى {ربنا وسعت كل شيء رحمة وعلما فاغفر للذين تابوا واتبعوا سبيلك} [غافر: 7] إلى قوله {وقهم السيئات} [غافر: 9] ، وأما السنة فأحاديث كثيرة منها ما في الصحيحين «حين ضحى بالكبشين فجعل أحدهما عن أمته» ، وهو مشهور تجوز الزيادة به على الكتاب، ومنها ما رواه أبو داود «اقرءوا على موتاكم سورة يس» وحينئذ فتعين أن لا يكون قوله تعالى: {وأن ليس للإنسان إلا ما سعى} [النجم: 39] على ظاهره، وفيه تأويلات أقربها ما اختاره المحقق ابن الهمام أنها مقيدة بما يهبه العامل يعني ليس للإنسان من سعي غيره نصيب إلا إذا وهبه له فحينئذ يكون له، وأما قوله - عليه السلام -: «لا يصوم أحد عن أحد، ولا يصلي أحد عن أحد» فهو في حق الخروج عن العهدة لا في حق الثواب فإن من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات والأحياء جاز ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة كذا في البدائع".

 (  کتاب الحج، باب الحج عن الغیر، ج:  3، ص: 63)ط: دارالكتاب الاسلامي)

حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح  میں ہے:

"فللإنسان أن یجعل ثواب عمله لغیره عند أهل السنة والجماعة سواء کان المجعول له حیًّا أو میتًا من غیرأن ینقص من أجره شيء. وأخرج الطبراني والبیهقي في الشعب عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا تصدق أحدکم بصدقة تطوعاً فلیجعلها عن أبو یه؛ فیکون لهما أجرها ولاینقص من أجره شيء".

(کتاب الصلاة، باب أحکام الجنائز، فصل في زیارة القبور، ص: 621 و622) ط: دارالکتب العلمیة)

الاعتصام للشاطبی میں ہے:

"ومنها: (ای من البدع)  التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته". 

(الاعتصام للشاطبي ، الباب الأول تعريف البدع وبيان معناها وما اشتق منه لفظا،(ص: 53)  ط: دار ابن عفان، السعودية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100583

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں