بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اجازت کے بغیر کسی کا مال فروخت کردینا


سوال

میری والدہ کی کچھ ذاتی زمین تھی،جو میرے والد نے والدہ کی اجازت کے بغیر فروخت کرکے خریدنے والے کو قبضہ بھی دے دیا،جب کہ والدہ بار بار منع بھی کرتی رہی،لیکن والد نے ان کی  ایک نہیں مانی،والدہ ابھی بھی اجازت نہیں دے رہی ،اب والدہ نے وہ زمین میرے نام کردی ہے، لیکن والد نے زمین جس کو فروخت کی ہےوہ واپس کرنے سے انکار کر رہے ہیں،اب سوال یہ ہے کہ یہ زمین کس کی ملکیت ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کے والد نے جب سائل کی والدہ کی زمین اس کی اجازت کے بغیر فروخت کی اور سائل کی والدہ نے بعد میں بھی اس(خرید وفروخت کے) معاملہ کی اجازت نہیں دی تو یہ معاملہ درست نہیں تھا،سائل کے والد پر لازم ہے کہ اس نے زمین خریدنے والے سے زمین کی جو قیمت وصول کی ہےوہ اس کو واپس کر دے اورزمین خریدنے والے پر لازم ہے کہ وہ سائل کے والد کو مذکورہ زمین واپس کردے،نیزسائل کی والدہ کا سائل کے نام پرمذکورہ زمین کردینے سےاس پر سائل کی ملکیت ثابت نہیں  ہوئی ہے،بلکہ وہ بدستور سائل کی والدہ کی ملکیت ہے،سائل کی ملکیت ثابت ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اُس کی والدہ  اُس کو مذکورہ زمین پر مالکانہ حقوق کے ساتھ قبضہ اور تصرف کا اختیار بھی دے دے۔

فتح القدیر میں ہے:

"ومنها شرط النفاذ وهو الملك والولاية، حتى إذا باع ملك غيره ‌توقف النفاذ على الإجازة ممن له الولاية."

(کتاب البیوع،ج6،ص248،ط؛دار الفکر)

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(وتصح بإيجاب ك وهبت ونحلت وأطعمتك هذا الطعام ولو) ذلك (على وجه المزاح) بخلاف أطعمتك أرضي فإنه عارية لرقبتها وإطعام لغلتها بحر (أو الإضافة إلى ما) أي إلى جزء (يعبر به عن الكل ك وهبت لك فرجها وجعلته لك)لأن اللام للتمليك بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة.

وقوله: بخلاف جعلته باسمك) قال في البحر: قيد بقوله: لك؛ لأنه لو قال: جعلته باسمك، لا يكون هبة."

(کتاب الہبۃ،ج5،ص689/688،ط؛سعید)

وفیه أیضا:

"(و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول)."

(کتاب الہبۃ،ج5،ص688،ط؛سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144309101077

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں