بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اجارہ صحیح ہونے کی شرائط


سوال

اجارہ کی شرائط کیا ہیں؟

جواب

اجارہ  کے صحیح ہونے کی بنیادی شرائط درج ذیل ہیں:

1۔  عمل متعین ہو۔

2۔  اجرت  متعین ہو۔

3۔ وقت متعین ہو۔

4۔  ایسی چیز کا  اجارہ جائز ہے، کہ جس  سے نفع اٹھانا  عین کو برقرار رکھتے ہوئے ممکن ہو، پس جس چیز سے نفع اٹھانا عین کی ہلاکت کو مستلزم ہو، اس چیز کا اجارہ جائز نہیں ہوتا، جیسے پھل فروٹ  میں اجارہ جائز نہیں، کیوں کہ  پھلوں سے نفع اٹھانا،  کھائے بغیر ممکن نہیں، اور پھل کھانے سے اصل ختم ہوجاتا ہے۔

النتف في الفتاويمیں ہے:

"واعلم ان الاجارة انما تجوز في الاشياء التي تتهيأ ويمكن لمستأجرها استجلاب منافعها مع سلامة اعيانها بمكانها لما لكهأ، ولا تجوز الاجارة على استهلاك الاعيان.

واعلم ان صحة الاجارة متعلقة بشيئين: اعلام الاجر واعلام العمل

فاذا كان احدهما مجهولا فالاجارة فاسدة لما روى عن النبي عليه الصلاة والسلام انه قال: من استأجر اجيرا فليعلمه اجره،  والاجارة اذا فسدت فانها يجب فيها اجر المثل لا التسمية الا ان تكون أقل من أجر المثل لان الاجير قد رضي بذلك.

معلومية الوقت والعمل: والاجارة لاتخلو من وجهين: اما ان تقع على وقت معلوم، او على عمل معلوم،  فان وقعت على عمل معلوم فلا تجب الاجرة الا باتمام العمل اذا كان العمل مما لا يصلح اوله إلا بآخره وان كان يصلح اوله دون آخره فتجب الاجرة بمقدار ما عمل، واذا وقعت على وقت معلوم فتجب الاجرة بمضي الوقت ان هو استعمله او لم يستعمله وبمقدار ما مضى من الوقت تجب الاجرة، واذا وقعت على عمل معلوم في وقت معلوم كقوله خط لي هذا الثوب الى طلوع الشمس او الى غروب الشمس او صلاة الظهر ونحوها فانها فاسدة في قول ابي حنيفة لانه لا يدري ايهما يسبق،وفي قول ابي يوسف ومحمد الاجارة جائزة لانها وقعت على العمل والوقت للتعجيل."

( كتاب الاجارة، ٢ / ٥٥٨ - ٥٥٩، ط: مؤسسة الرسالة - بيروت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144411101468

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں