بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اجارہ پر لی ہوئی غیر زرعی زمینوں کو آگے اجارہ پر دینے کی صورت میں اس سے حاصل ہونے والے کرایہ کا حکم


سوال

 ہمارے علاقوں میں دیہاتی علاقے جو فصل وغیرہ نہیں اگا سکتے ہم ان کی غیرزرعی زمینوں کو اجارہ پر لیتے ہیں پھر آگے چرواہوں کو اجارے پر دیتے ہیں کیا ان کے جو حاصلات پیسے وغیرہ ہیں ہمارے وہ لیے جائز ہے یا ناجائز؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اول کرایہ دار  نے مذکورہ غیر زرعی زمینوں میں کوئی قابل قدر اضافہ تعمیر وغیرہ نہیں کی تھی تو چرواہوں کو اجارہ پر دینا  کرایہ اول (یعنی جتنا زمین کے مالک ساتھ طے ہوا تھا)کے ساتھ جائز ہوگااور اگر چرواہوں سے کرایہ اول سے زیادہ لیا تو جتنی رقم زیادہ لی  اس رقم کو صدقہ کرنا واجب ہے۔ اور اگر زمینوں میں کوئی     اصلاح یا قابل قدر اضافہ کیا تھا تو جتنا بھی کرایہ چرواہوں سے طے کرلیاجائے  تو اس کا لینا جائز ہوگا۔ اسی طرح اگر کرایہ دار نے چرواہوں کے ساتھ اجرت خلاف جنس طے کی ہو مثلاً یعنی کرایہ دار کو اجرت گندم دینا تھی اس نے چرواہوں سے اجرت چاول مقرر کردی تو یہ اجرت بھی لینا جائز ہوگا۔  

فتاوی شامی میں ہے:

"(وله السكنى بنفسه وإسكان غيره بإجارة وغيرها) وكذا كل ما لا يختلف بالمستعمل يبطل التقييد؛ لأنه غير مفيد، بخلاف ما يختلف به كما سيجيء، ولو آجر بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين: إذا آجرها بخلاف الجنس أو أصلح فيها شيئا". 

(كتاب الاجارة، باب ما يجوز من الاجارة، ج:6، ص:29، ط:سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإذا استأجر دارا وقبضها ثم آجرها فإنه يجوز إن آجرها بمثل ما استأجرها أو أقل، وإن آجرها بأكثر مما استأجرها فهي جائزة أيضا إلا إنه إن كانت الأجرة الثانية من جنس الأجرة الأولى فإن الزيادة لا تطيب له ويتصدق بها، وإن كانت من خلاف جنسها طابت له الزيادة ولو زاد في الدار زيادة كما لو وتد فيها وتدا أو حفر فيها بئرا أو طينا أو أصلح أبوابها أو شيئا من حوائطها طابت له الزيادة، وأما الكنس فإنه لا يكون زيادة وله أن يؤاجرها من شاء إلا الحداد والقصار والطحان وما أشبه ذلك مما يضر بالبناء ويوهنه هكذا في السراج الوهاج".

(كتاب الاجارة، الباب السابع في إجارة المستأجر، ج:4، ص:425، ط:رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100554

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں