بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اجارہ کی زمین میں عشر کس کے ذمہ ہے؟


سوال

میرے پاس کچھ زرعی زمین ہے جو کہ میں نے اجارہ  پر دی ہوئی ہے، جس نے مجھ سے زمین لی ہوئی ہے، وہ فی ایکڑ کے حساب سے مجھے اس کے پیسے دیتا ہے، کیا ہر فصل کا عشر مجھے بھرنا پڑے گا یا جس نے مجھ سے زمین اجارہ  پر لی ہوئی ہے وہ بھرے گا؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص اپنی   زمین کرایہ  پر دے تو اس صورت میں اس کا عشر  زمین کے مالک پر ہوگا یا کرایہ دار پر! اس میں یہ تفصیل ہے کہ زمین کا مالک اگر کرایہ بہت  زیادہ لیتا ہے اور کرایہ دار کو  کم بچت ہوتی ہے تو ایسی صورت میں عشر  زمین کے مالک کے ذمہ ہوگا، اور اگر  زمین کا مالک کرایہ کم لیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کرایہ دار کو بچت زیادہ ہوتی ہے تو ایسی صورت میں  زمین کا عشر کرایہ دار کے ذمہ لازم ہوگا۔

اس زمانے میں کرایہ عموماً   کم ہوتا ہے، اور اس کے مقابلہ میں مستاجر (کرایہ دار) کو بچت زیادہ ہوتی  ہے ، اس لیے موجودہ زمانے میں از روئے فتویٰ عشر  کرایہ دار پر ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"والعشر على المؤجر كخراج موظف وقالا على المستأجر كمستعير مسلم: وفي الحاوي وبقولهما نأخذ.
(قوله: والعشر على المؤجر) أي لو أجر الأرض العشرية فالعشر عليه من الأجرة كما في التتارخانية وعندهما على المستأجر قال في فتح القدير: لهما أن العشر منوط بالخارج وهو للمستأجر وله أنها كما تستنمى بالزراعة تستنمى بالإجارة فكانت الأجرة مقصودة كالثمرة فكان النماء له معنى مع ملكه فكان أولى بالإيجاب عليه۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قلت: لكن في زماننا عامة الأوقاف من القرى والمزارع لرضا المستأجر بتحمل غراماتها ومؤنها يستأجرها بدون أجر المثل بحيث لا تفي الأجرة، ولا أضعافها بالعشر أو خراج المقاسمة، فلا ينبغي العدول عن الإفتاء بقولهما في ذلك؛ لأنهم في زماننا يقدرون أجرة المثل بناء على أن الأجرة سالمة لجهة الوقف ولا شيء عليه من عشر وغيره أما لو اعتبر دفع العشر من جهة الوقف وأن المستأجر ليس عليه سوى الأجرة فإن أجرة المثل تزيد أضعافا كثيرة كما لا يخفى فإن أمكن أخذ الأجرة كاملة يفتى بقول الإمام وإلا فبقولهما لما يلزم عليه من الضرر الواضح الذي لا يقول به أحد والله تعالى أعلم."

(کتاب الزکات،باب العشر،ج:2،ص:334،سعید)

فتاوی مفتی محمود میں ہے :

"معلوم ہوا کہ اگر موجر پوری اجرت لے اور مستاجر کے پاس بہت کم بچے تو عشر موجر کے ذمہ ہوگااور اگر موجر اجرت کم لے اور مستاجر کے پاس زیادہ بچے تو مستاجر کے ذمہ ہے ۔موجودہ زمانہ  عموماً اجرت کم لی جاتی ہے ،مستاجر کی آمدنی زیادہ ہوتی ہے ؛اس لیے وجوب عشر مستاجر پر ہوگا ،ہاں اگر کسی جگہ پوری اجرت لی جائے  جس میں  زمین دار عشر بخوبی ادا کرسکتا ہو تو اس وقت وجوب عشر علی الموجر پر فتوی ہوگا ".

(باب الحظر والاباحۃ،ج:11،ص:76،جمعیت پبلی کیشنز)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101922

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں