بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایجاب و قبول کے وقت مہر ذکر کیے بغیر نکاح کا انعقاد


سوال

میں ایک جگہ نکاح پڑھانے کے لیے گیا، مجلسِ نکاح میں دولہا ،دلہن کے والد،اور بھائی ودیگر عزیز و اقارب دوست و احباب معززین موجود تھے، سب سے پہلے میں نے دولہن کے بھائی سے کہا، دولہا اور دولہن کا نام بمع ولدیت کسی پرچی پر لکھ کر مجھے دے دو، اس نے مجھے لکھ کر دے دیے،تھوڑی دیر کے بعد میں نے اس سے کہا مہر کتنا ہے ؟اس نےکہا شرعا مہر کی جو کم از کم رقم بنتی ہے، وہ کتنی ہے؟ میں نے کہا تقریبا پندرہ ہزار روپے، پھر وہ دولہا کی طرف متوجہ ہو گیا،اور اس سے کہا یہ رقم آپ نے ادا کرنی ہے، اس نے کہا میں حاضر ہوں، اور پھر بوجۂ خوشی کے ہنسنے لگا، پھر میں نے تین آدمی لڑکی کی طرف بھیجے، تاکہ اس کی رضا مندی معلوم کرکے آئیں، اور یہ کہ وہ اپنے نکاح کا وکیل کس کو ٹھہراتی ہے؟ ایک آدمی نے لڑکی سے پوچھا! اور دو آدمی اس پر گواہ تھے، پھر انہوں نے آکر بتایا کہ لڑکی اس نکاح پر رضامند ہے ،اور اپنے نکاح کا وکیل اپنے والد صاحب کو منتخب کیا ہے ، اس کے بعد میں نے سینکڑوں گواہوں کی موجودگی میں نکاح کا خطبہ پڑھا، پھر لڑکی کے والد سے ایجاب کروایا ،اور دولہا کو قبول کروایا، میرا مکالمہ لڑکی کے والد سے یوں تھا:

نکاح خواں(یعنی میں) لڑکی کے والد سے(بات کرتے ہوئے):شفیع محمد کیا آپ نے اپنی بیٹی بی بی سعدیہ زید کے نکاح میں دےدی ؟

شفیع محمد:جی دے دی،

نکاح خواں (یعنی میں)زید سے :زید بن عمر کیا آپ نے شفیع محمد کی بیٹی بی بی سعدیہ کو اپنے نکاح میں قبول کیا ؟

زید:جی قبول کیا،

اس کے بعد میں نے دولہا اور دولہن والوں کو مبارک باد دی، اور دعا کے لیےہاتھ اٹھائے ، دعا کے بعد ایک آدمی نے کہا حافظ صاحب آپ نے ایجاب و قبول تو کرلیا ،مگر مہر کا تذکرہ ایجاب و قبول میں نہیں کیا، میں نے کہا، اوہو مجھے تو یاد ہی نہیں رہا، پھر میں نے کہا مہر پندرہ ہزار روپے ہے بھائی سارے سن لیں ،میں نے اس بنیاد پر کہا تھا ،جو وہ مجھے بتا چکے تھے (جیسا کہ شروع میں بتا چکا ہوں تفصیل سے)کیوں کہ لڑکی کے بھائی مجھے ایجاب و قبول سے پہلے مہر کے متعلق بتا چکے تھے، اس حساب سے میں نے مقرر کیا تھا، اور دولہا ایجاب و قبول سے پہلے مذکورہ مہر کو ہنسی خوشی قبول کر چکی تھی ، اب بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ نکاح منعقد نہیں ہوا، کیوں کہ ایجاب و قبول میں تعیینِ مہر و تذکرۂ مہر نہیں ہوا ، نکاح خواں کو ایجاب کے وقت یوں کہنا چاہیے تھا کہ مثلا: کیا آپ نے اپنی فلاں بیٹی کا نکاح فلاں کے بیٹے کو بعوضِ شرعی حق مہر پندرہ ہزار روپے میں دے دی ،اور قبول کرواتے وقت یوں کہنا چاہیے تھا کہ: کیا آپ نےفلاں کی بیٹی بعوض شرعی حق مہر پندرہ ہزار روپے میں قبول کی،لیکن نکاح خواں نے ایجاب و قبول میں مہر کا تذکرہ نہیں کیا، خواہ بھول کر یا عمداً، اس سلسلے میں دریافتِ طلب امر یہ ہے کہ:

  1. کیا یہ نکاح منعقد ہوا یا نہیں؟
  2.  مہر کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے؟پندرہ ہزار روپے جو طے ہوا تھا، قبلَ الایجاب و بعدَالایجاب برضاءِالفریقین وہی مہر صحیح ہے یا از سر نو مقرر کیا جائے؟
  3. کیا نکاح کے بعد مہر مقرر کرنا درست ہے؟
  4. کیا ایجاب و قبول میں مہر کا تذکرہ کرنا ضروری ہے؟اگر ہاں تو اگر بھول جائے تو کیا کیا جائے؟کیا دوبارہ ایجاب و قبول کروایا جائے؟ کیا نکاح سے پہلے مہر مقرر کرنا صحیح ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ مہر عورت کا شرعی حق ہے، اور مہر کی رقم طے کرنے کا معاملہ شریعت نے جانبین کی رضامندی پر رکھا ہے، لڑکی اور لڑکے والے باہمی مشورے سے جو مہر طے کرلیں شریعت نے اسی کا اعتبار کیا ہے ،لیکن اگر ایجاب وقبول کے وقت مہر کا ذکرنہیں کیا گیاتونکاح کے انعقاد پر کوئی اثر نہیں پڑھتا۔

1۔ صورتِ مسئولہ میں اگر ایجاب و قبول ہوچکا ہے اور مہر کا ذکر ایجاب و قبول میں نہیں ہوا، لیکن بعد میں مقرر شدہ مہر کا اعلان کردیا تھا تو نکاح منعقد ہو چکا ہے۔

2۔  جس طرح سے مہر (15 ہزار روپے)کا تذکرہ  مجلس کے شروع اور آخر میں ہواہے،اور 15 ہزار روپے نکاح نامہ میں بھی لکھا گیا ہے،اور مذکوہ خاتون اور اس کے خاندان والے اس پر راضی ہیں،تو مذکورہ خاتون کا مہر 15 ہزار ہی ہوگا،اور مہر کی وجہ سے دوبارہ از سرِ نو نکاح کے انعقاد کی ضرورت نہیں ہے۔

3۔ نکاح کے بعد بھی مہر مقرر کیا جا سکتا ہے جانبین کی رضا مندی سےیعنی میاں بیوی کے درمیان باہم رضا مندی سے جس طرح قبلَ النکاح مہر مقرر کیا جاسکتا ہے تو اسی طرح سے بعدَ النکاح بھی مہر متعین کیا جا سکتاہے،اور شوہرپروہی مقرر کردہ مہر دینا لازم ہوگا۔

4۔نکاح سے پہلے مہر کا تذکرہ ضروری نہیں،البتہ پہلے ذکر کرنا بہتر اور اچھا طریقہ ہے تاکہ بعد میں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما المسمى، فإنما قام مقامه للتراضي به ثم عرف المهر في العناية بأنه اسم للمال الذي يجب في عقد النكاح على الزوج في مقابلة البضع إما بالتسمية أو بالعقد."

(کتاب النکاح، باب المهر، ج:3 ص:101 ط: سعید)

و فیہ أیضاً:

"(وكذا يجب) مهر المثل (فيما إذا لم يسم) مهرا (أو نفى إن وطئ) الزوج (أو مات عنها إذا لم يتراضيا على شيء) يصلح مهرا (وإلا فذلك) الشيء (هو الواجب... (قوله وإذا لم يتراضيا) أي بعد العقد (قوله وإلا) بأن تراضيا على شيء فهو الواجب بالوطء أو الموت أما لو طلقها قبل الدخول فتجب المتعة كما يأتي في قوله: وما فرض بعد العقد أو زيد لا يتنصف."

(کتاب النکاح، باب المهر، ج3 ص109 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100908

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں