بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شرعی گواہان کی موجودگی میں ایجاب و قبول کرنے سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے


سوال

میری اور میرے ماموں کی بیٹی کی تقریباً 3سال سے بات چیت ہے، ہم دونوں تقریباً ہم عمر ہیں،  ہمارے گھر والوں کو کچھ عرصہ پہلے اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے ہمارا آپس میں رشتہ طے کردیااور کہا کہ آپ پڑھائی مکمل کرو،  4 سَال بعد آپ کی شادی کرادیں گے، اس بات کا امکان موجود ہے کہ ڈیڑھ سال تک ہمارے گھر والے نکاح کردیں اور 4 سال بعد رخصتی ، ہماری آپس میں موبائل فون پر بات چیت ہوتی ہے اورمیں خود  مشت زنی بھی کر لیتا ہوں،  تو گناہوں سے بچنے کےلیے لڑکی اور میں نے ولی کی اجازت کےبغیر درج ذیل طریقے سے نکاح کرلیا،  لڑکی نے میرے  دوست کو کال پہ اپنا وکیل مقرر کردیا، کہ آپ میری طرف سے ایجاب و قبول کرلیں، تو لڑکی کا وکیل جو کہ میرا  دوست ہے اس نے دو گواہوں کی موجودگی میں ایک قاضی صاحب جو کہ نکاح کے گواہ بھی تھے اور دوسرا ایک بندہ بھی گواہ تھا ، تو لڑکی کےوکیل نے لڑکی کی جگہ ایجاب و قبول کرلیا، اور  میں  نے بھی ایجاب و قبول کرلیا، دلہن کا وکیل اور میں  اور دو گواہ (قاضی خود گواہ + ایک اور گواہ) ایک ہی مجلس میں موجود تھےاور یہ سب عاقل بالغ مسلمان تھے،  کیا ہمارا آپس میں نکاح ہوگیا ہے یا نہیں؟

نوٹ: واضح رہے  کہ لڑکی کا وکیل جو سائل  کا دوست ہے وہ لڑکی کا رشتہ دار نہیں ہے اور گواہ بھی لڑکی کے رشتے دار نہیں ہیں،  لیکن لڑکے نے گواہوں کو اور وکیل کو لڑکی کامکمل تعارف کرادیا یہ نکاح ایک عام عاقل بالغ مسلمان نے پڑھا یا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل اور لڑکی کے وکیل نے لڑکی کی طرف سے گواہان کی موجودگی موجودگی میں عقد نکاح کا  ایجاب و قبول کرلیا، تو نکاح  ہوگیا ہے اور نکاح کے وقت جو مہر مقرر ہوا تھا، وہ ادا کرنا لازم ہے۔ تاہم اس طرح چوری چھپے نکاح کرانامناسب نہیں،بلکہ یہ خلاف سنت، بدگمانی اور کئی مفاسد کا اندیشہ  ہے، لہذاسائل کو چاہئے کہ گھر والوں کو اعتماد میں لے کر رسمی طور پر نکاح اور رخصتی کرالیں۔

فتح القدير ميں  ہے:

"(قوله النكاح ‌ينعقد ‌بالإيجاب والقبول) قدمنا أن النكاح في عرف الفقهاء هو العقد، وهذا بيان لأن هذا العقد لم يثبت انعقاده حتى يتم عقدا مستعقبا لأحكامه، فلفظ النكاح في قوله النكاح ينعقد بمعنى العقد: أي ذلززالعقد الخاص ينعقد حتى تتم حقيقته في الوجود بالإيجاب والقبول."

(كتاب النكاح، ج:3، ص:189، ط:دار الفكر)

فتاوی عالمگیر میں ہے:

"وإن تزوجها ولم يسم لها مهرا أو تزوجها على أن لا مهر لها فلها مهر مثلها إن دخل بها أو مات عنها."

(كتاب النكاح،  الفصل الثاني، ج:1، ص:304، ط:دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144312100685

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں