اگر کسی کو سحری کے وقت یا رات کو احتلام ہو جاۓ تو کیا وہ سحری میں (کھانا ، پینا )کر سکتا ہے غسل کیے بغیر؟ اور اگر وہ غسل صبح مطلب فجر کی اذان کے بعد کرے تو کس طرح غسل کرے، مطلب کلی اور غر ارے کرے کہ نہ کرے ؟
اگر کوئی شخص جنابت (ناپاکی) کی حالت میں ہو اور سحری کرنا چاہتا ہو تو اس کے لیے بہتر تو یہی ہے کہ غسل کرکے سحری کرے ، اگر غسل کا وقت نہ ہو یا کوئی عذر ہو تو وضو یا کلی وغیرہ کرکے سحری کرلینی چاہیے، اس لیے کہ جنابت کی حالت میں سحری کرنا منع نہیں ہے۔
لہذاجس شخص پر غسل واجب ہو اور وہ صبح صاد ق سے پہلے غسل نہ کرسکے اور سحری کرکے روزہ رکھ لے تو اس کا روزہ درست ہے، ناپاک ہونے کی وجہ سے روزہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ البتہ غسل میں اتنی تاخیر کرنا کہ فجر کی نماز قضا ہوجائے گناہ کا باعث ہے۔
اور روزے کی حالت میں غسل کا وہی طریقہ ہے جو عام حالات میں ہے، البتہ روزہ کی وجہ سے ناک میں اوپر تک پانی ڈالنا اور کلی میں غرارہ کرنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ ناک میں پانی چڑھانے سے یا غرارہ کرنے میں پانی حلق سے نیچے اتر گیا تو اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا، لہذا صرف کلی کرلے اور ناک میں پانی ڈال لے توغسل صحیح ہوجائے گا، افطاری کے بعد غرارہ کرنے یاناک میں پانی چڑھانے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 400):
"(أو أصبح جنبًا و) إن بقي كل اليوم ... (لم يفطر)".
الفتاوى الهندية (1/ 16):
"الجنب إذا أخر الاغتسال إلى وقت الصلاة لايأثم، كذا في المحيط."
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144109201178
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن