بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو القعدة 1446ھ 22 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

احساس پروگرام کی طرف سے ملنے والی رقم کا حکم


سوال

1۔آج کل    حکومت کی طرف سےا حساس کفالت کےنام سے ہرمہینے بارہ ہزار روپے جو ملتے ہیں،اس بار تو عورتوں کو پانچ ہزار روپے  عیدی بھی ملی تھی اور کہتے ہیں کہ یہ بینظیر بھٹو کی طرف سے اور کبھی عمران خان کی طرف سے ملی ہے،  آیا یہ پیسے لینا لوگوں کے لیے جائز ہوگا یا نہیں ؟

2۔ جہاں سے یہ پیسے ملتے ہے ،مثال  کے طورپر ایک عورت کو حکومت کی طرف سے بارہ ہزار روپے مل رہےہیں تو وہ آدمی بارہ ہزار روپے کی تصویر کھینچ لیتے ہیں پھر تصویر کے بعد پیسے جب دیتا ہےتو پانچ سو یا ایک ہزار روپے خود لے لیتا ہے تو یہ پیسے لینا اس کے لیے جائز ہے یا نہیں ؟اور یہ کیا  رشوت شمارنہیں ہوگا ؟

وضاحت:حکومت کی طرف سے مذکورہ شخص کو اجازت نہیں ہے کہ وہ بارہ ہزار روپے میں سے پانچ سو یا ہزارروپے کاٹے، بلکہ وہ عورت کو یہ کہتا ہے کہ جلدی پیسے چاہیے تو میں پانچ سو یاہزارروپے خود رکھوں گا اور  بقایا رقم آپ کو دوں گا۔

جواب

1۔حکومت پاکستان کی جانب سے ضرورت مند افراد کی مدد کےلیے احساس پروگرام کے نام سے ،یا بینظیر انکم  سپورٹ کےنام سے جو رقم دی جاتی ہے،اس کی حیثیت تبرع واحسان کی ہوتی ہے،لہذا اگر یہ رقم محض ضرورت مند وں کے لیے ہے تو  ضرورت مند افراد کے علاوہ کسی اور کےلیے مذکورہ رقم وصول کرنا جائز نہیں ہوگا،مذکورہ پروگرام کے تحت جن ضرورت مند خواتین کو عیدی دی گئی ،ان کےلیے مذکورہ رقم استعمال کرنا جائز  ہوگا۔

2۔مذکورہ پروگرام  کے تحت ضرورت مند افراد کو  بارہ ہزارکی رقم دیتے ہوئےتصویر بنانااور بعدمیں   پانچ سو یا ہزار روپے اس میں سے بلا کسی عوض کےکا ٹنا رشوت ہونے کی وجہ نا جائز   اور حرام ہوگا،ایسا کرنے والے افراد ناحق رقم وصول کرنے کی وجہ  گناہ گار   ہوں گے،نیز اس میں اگر ضرورت مند خواتین کی تصویر بنوائی جاتی ہو تو یہ دھراحرام کا ارتکاب ہے،اس سے بچنا چاہیے۔

 حدیث شریف میں آتا ہے:

"قال رسول الله صلى اللہ علیه و سلم: ألا لاتظلموا، ألا لایحل مال امرء إلا بطیب نفس منه."

  (مشکوٰۃ،  كتاب البيوع ،‌‌باب الغصب والعارية،ج:1، ص:255، ط:قدیمی)

ترجمہ: خبردار!  اے مسلمانو! ظلم نہ کیا کرو، اور یاد رکھو کسی شخص کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر دوسرے شخص کے لیے حلال نہیں ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وكما لايجوز صرف الزكاة إلى الغني لايجوز صرف جميع الصدقات المفروضة والواجبة إليه كالعشور والكفارات والنذور وصدقة الفطر لعموم قوله تعالى: {إنما الصدقات للفقراء} [التوبة: 60] وقول النبي صلى الله عليه وسلم: «لاتحل الصدقة لغني» ولأن الصدقة مال تمكن فيه الخبث لكونه غسالة الناس لحصول الطهارة لهم به من الذنوب، و لايجوز الانتفاع بالخبيث إلا عند الحاجة والحاجة للفقير لا للغني." 

(كتاب الزكوة، فصل فى شرائط ركن الزكوة، ج:2، ص:47، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے :

 "قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجاً ينسج له ثياباً في كل سنة."

(كتاب الإجارة،ج6،ص63،ط:سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611101392

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں