بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

احسان جتلانا گناہ ہے


سوال

والد کی وفات کے بعد بڑا بھائی گھر کی ذمہ داریاں اٹھاتا ہے۔شریعت کے مطابق یہ ذمہ داریاں نبھانا بھائی کا فرض ہے۔سوال یہ ہے کہ ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کا احسان بھائی بہنوں پرجتاتا ہےتو کیا یہ جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ والد کے انتقال کے بعد اگر بیٹیاں مال دار ہوں تو شرعاً ان کے اخرجات خود ان کے اپنے مال سے پورے کیے جائیں گے، لیکن اگر بیٹیاں مال دار نہ ہوں تو ان کے مال دار بھائیوں  پر اپنی بہنوں کا نان نفقہ (جب تک ان کی شادی نہ ہوجائے) شرعاً لازم ہوگا، ایسی صورت میں بہنوں کے اخرجات کی ذمہ داری بھائیوں کا شرعی اور اخلاقی فریضہ ہے، جس کی ادائیگی بھائیوں پر شرعاً ضروری ہے، حدیثِ مبارکہ میں ایسے شخص کے لیے جس نے اپنی بہنوں سے اچھا سلوک کیا اور ان کے حقوق پورے کیے جنت کی بشارت آئی ہے، سنن ترمذی کی روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کی تین بیٹیاں یا بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں، پھر وہ ان کے ساتھ اچھے برتاؤ سے رہے، ان کے حقوق کے معاملے میں اللہ تعالی سے ڈرتا رہے تو ایسے شخص کے لیے جنت ہے، لہذا اگر بھائی بہنوں کے اخرجات پورے کرتے ہیں تو وہ اپنی شرعی ذمہ داری پوری کرتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں اپنی بہنوں پر احسان جتلانے کا کوئی جواز نہیں ہے، ویسے بھی شریعت کی نظر میں احسان جتلانا بہت برا فعل ہے، اللہ تعالی قرآنِ مجید میں فرماتے ہیں:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ.

ترجمہ:  اے ایمان والو! تم احسان جتلا کر یا ایذا پہنچا کر اپنی خیرات کو برباد مت کرو، جس طرح وہ شخص جو اپنا مال خرچ کرتا ہے (محض) لوگوں کے دکھلانے کی غرض سے اور ایمان نہیں رکھتا اللہ پر اور یومِ قیامت پر، سو اس شخص کی حالت ایسی ہے جیسے ایک چکنا پتھر ہو جس پر کچھ مٹی آگئی ہو پھر اس پر زور کی بارش پڑجائے، سو  اس کو بالکل صاف کردے، ایسے لوگوں کو اپنی کمائی ذرا بھی ہاتھ نہ لگے گی اور اللہ تعالی کافر لوگوں کو (جنت کا) راستہ نہ بتلائیں گے۔

(بیان القرآن، مؤلفہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ، ج: 1، ص: 191، ط: مکتبہ رحمانیہ)

صحیح مسلم کی روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تین (آدمی) ایسے ہیں کہ اللہ ان سے قیامت کے دن بات نہیں کریں گے اور ان کی طرف (رحمت کی نظر سے) نہیں دیکھیں گے اور ان کو (گناہوں سے) پاک نہیں کریں گے اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے، راوی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے عرض کی ایسے لوگ نامراد اور ناکام ہوئے، یہ کون ہوں گے اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے فرمایا: ٹخنوں سے نیچے (شلوار) لٹکانے والا، احسان جتلانے والا اور  جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان فروخت کرنے والا۔

سنن نسائی کی روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: احسان جتلانے والا، والدین کا نافرمان اور شراب پینے کا عادی (یہ تین لوگ) جنت میں نہیں جائیں گے۔

پس معلوم ہوا کہ احسان جتلانا نیکی کو تباہ کردیتا ہے اور اس کی وجہ سے بندہ عذابِ الٰہی کا مستحق بن جاتا ہے۔

بہنوں کو بھی چاہیے کہ اسباب کے درجے میں اللہ تعالی نے ان کی کفالت کا ذریعہ ان کے بھائیوں کو بنایا ہے، لہذا وہ اپنے بھائیوں کا احترام کریں، ظاہراً بھی  اور دل سے بھی اپنے بھائیوں کی شکر گزار رہیں، نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: جس نے لوگوں کا شکر ادا نہیں کیا اس نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا، ایک دوسری روایت میں نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: بڑے بھائی کا حق چھوٹے (بھائی، بہنوں)  پر ایسا ہی ہے جیسے والد کا اس کی اولاد پر حق ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"القسم السابع: الحواشي فقط، والمعتبر فيه الإرث بعد كونه ذا رحم محرم وتقديره واضح في كلامهم كما سيأتي ثم هذا كله إذا كان جميع الموجودين موسرين، فلو كان فيهم معسر، فتارة ينزل المعسر منزلة الميت وتجب النفقة على غيره، وتارة ينزل منزلة الحي وتجب على من بعده بقدر حصصهم من الإرث."

(کتاب الطلاق، باب النفقہ، ج: 3، ص: 625، ط: سعید)

سنن ترمذی میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‌من ‌كان ‌له ‌ثلاث ‌بنات أو ثلاث أخوات أو ابنتان أو أختان فأحسن صحبتهن واتقى الله فيهن فله الجنة."

(ابواب البر و الصلۃ، باب ما جاء فی النفقۃ علی البنات و الاخوات، ج: 3، ص: 384، ط: دار الغرب الاسلامی)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي ذر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة، ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم قال: فقرأها رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث مرارا، قال أبو ذر: خابوا وخسروا، من هم يا رسول الله؟ قال: المسبل، والمنان، والمنفق سلعته بالحلف الكاذب."

(کتاب الایمان، باب غلظ تحریم اسبال الازار و المن بالعطیۃ و تنفیق السلعۃ بالحلف، ج: 1، ص: 102، ط: دار احیاء التراث العربی)

سنن نسائی میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا يدخل الجنة منان، ولا عاق، ولا مدمن خمر."

(کتاب الاشربۃ، الروایۃ فی المدمنین فی الخمر، ج: 8، ص: 318، ط: مکتب المطبوعات الاسلامیہ)

مسند احمد میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  من ‌لم ‌يشكر ‌الناس، لم يشكر الله عز وجل."

(مسند ابی ہریرہ، ج: 12، ص: 472، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن العاص قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: حق ‌كبير ‌الإخوة على صغيرهم حق الوالد على ولده . روى البيهقي الأحاديث الخمسة في شعب الإيمان"

(کتاب الادب، باب البر و الصلۃ، ج: 3، ص: 1383، ط: المکتب الاسلامی)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101597

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں