بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

احرام میں چاکلیٹ کھانا


سوال

1) کیا احرام کی حالت میں کھانے پینے چیزوں میں بھی کچھ پابندیاں ہیں؟ کیا وہ چیزیں جن میں کوئی خوشبو ہو وہ احرام کی حالت میں کھائی جا سکتی ہیں، اگر کسی نے خوشبو والی کوئی چیز کھائی ہو تو اس پر صدقہ کتنا آئے گا یا دم دینا پڑے گا؟

2)میں نے احرام کی حالت میں چاکلیٹ کھایا تھا اور میرے ساتھ خواتین تھیں انہوں نے بھی کھایا تھا اب ہم نے صدقہ دینا ہے یا دم دینا ہے؟

جواب

1) واضح رہے کہ کسی  کھانے کی چیز میں خوشبو ڈالی گئی ہو اور اسے پکایا گیا ہوتو اس کے کھانے سے کچھ لازم نہیں ہوگا۔

 اگر پکایا نہیں گیا ہواور کھانے/ پینے  کی اشیاء میں خوشبو غالب ہو تودم لازم آئے گااور   اگر خوشبو مغلوب ہو  تو کھانے کی اشیاء میں کچھ لازم نہیں آئے گا ،البتہ اگر خوشبو کا اثر محسوس ہو تو مکروہ ہوگا اور مشروبات میں اگر خوشبو مغلوب ہو تو   صدقہ لازم آئے گا ،تاہم اگر ایک سے زیادہ مرتبہ پیا تو  دم لازم آئے گا،نیز خوشبو دار شئی کا کھانے /مشروب میں ملا نےکے بعد بھی اگر ویسی ہی آئے جیسے ملانے سے پہلے تو یہ غالب شمار ہوگی ،ورنہ مغلوب شمار ہوگی۔

2)عام طور پر چاکلیٹ میں خوشبو نہیں ہوتی  اور بعض چاکلیٹوں میں بھی مغلوب ہوتی ہے ،چناں چہ سائل پر ایک مرتبہ چاکلیٹ کھانے سے کچھ لازم نہیں ئےگا۔

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

"ولو جعله في طعام قد طبخ فلا شيء فيه وإن لم يطبخ وكان مغلوبا كره أكله كشم طيب وتفاح."

"(قوله ولو جعله) أي الطيب في طعام.....اعلم أن خلط الطيب بغيره على وجوه لأنه إما أن يخلط بطعام مطبوخ أو لا ففي الأول لا حكم للطيب سواء كان غالبا أم مغلوبا، وفي الثاني الحكم للغلبة إن غلب الطيب وجب الدم، وإن لم تظهر رائحته كما في الفتح، وإلا فلا شيء عليه غير أنه إذا وجدت معه الرائحة كره، وإن خلط بمشروب فالحكم فيه للطيب سواء غلب غيره أم لا غير أنه في غلبة الطيب يجب الدم، وفي غلبة الغير تجب الصدقة إلا أن يشرب مرارا فيجب الدم."

(‌‌كتاب الحج،باب الجنايات في الحج،ج2،ص546-547،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"قال ابن أمير حاج الحلبي: لم أرهم تعرضوا بماذا تعتبر الغلبة، ولم يفصلوا بين القليل والكثير كما في أكل الطيب وحده. والظاهر أنه إن وجد من المخالط رائحة الطيب كما قبل الخلط فهو غالب وإلا فمغلوب."

(‌‌كتاب الحج،باب الجنايات في الحج،ج2،ص546-547،ط:سعید)

بحر الرائق میں ہے :

"إلا أن يكون مرارا كثيرة فدم والمراد بالمرار المرتان فأكثر كما صرح به ‌قاضي ‌خان في فتاويه."

(كتاب الحج،باب الجنايات في الحج،ج3،ص4،ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412101508

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں