بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

احرام کی حالت میں خوشبو لگانے کا حکم


سوال

عضو صغیر ،عضو کبیر وغیرہ پر خوشبو کے مسائل کا مطالعہ کر رہا تھا تو مندرجہ ذیل کتابوں میں ڈھونڈنے کے باوجود تھوڑی سی تشنگی رہ گئی ہے، انوار مناسک، کتاب المسائل، بدائع الصنائع،1- خوشبو کی مقدار کم ہو اور بڑے عضو میں چوتھائی سے بھی کم لگائی تو کیا؟2- خوشبو کی مقدار کم ہو اور پورے چھوٹے عضو پر لگانے سے صدقہ فطر واجب ہوتا ہے3- اگر اس سے کم چوتھائی سے زیادہ تو کیا اور چوتھائی سے کم ہو تو کیا4- اسی طرح خوشبو کی مقدار زیادہ ہو اور پورے چھوٹے عضو پر لگانے سے دم واجب ہوتا ہے 5-تو اُس سے کم چوتھائی سے زیادہ میں کیا اور6- چوتھائی سے کم میں کیا؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  اگر  محرم خوشبواستعمال کرےاور وہ خوشبوزیادہ ہو تو دم لازم ہوگا، اور اگر کم ہو تو صدقہ لازم ہوگا،مشایخ کا قلیل اور کثیر کے درمیان حد فاصل میں اختلاف ہے،بعض مشایخ نے مکمل بڑے عضو مثلاً ران یا پنڈلی وغیرہ پر خوشبو لگانے کو کثیر کہا ہے،بعض نے بڑے عضو کے چوتھائی پر خوشبو لگانے کو کثیر کہا ہے،امام ابوجعفر رحمہ  اللہ نے خوشبو کے اعتبار سے قلت اور کثرت کا اعتبار کیا ہے، اگر خوشبو  اپنی ذات کے اعتبار سے زیادہ ہیں یعنی خوشبو اتنی  ہیں کہ لوگ اسے زیاد سمجھتے ہیں تو وہ زیادہ ہے،ورنہ کم ہے،ان تمام اقوال میں تطبیق یوں ہے کہ اگر خوشبو کم ہے تو اعتبار عضو کا ہے، خوشبو کا نہیں، لہذا اگر تھوڑی سے خوشبولے کر مکمل عضو پر مل لیا تو یہ کثیر ہوگااور دم لازم ہوگا،اور مکمل عضو سے کم پر ملا تو صدقہ لازم ہوگا،اور اگر خوشبو زیادہ ہو تو اعتبار خوشبو کا ہے ،عضو کا نہیں،لہذااگر زیادہ خوشبو لے کر چوتھائی عضو پر لگایا تو دم لازم ہوگا۔

فتوی عالمگیری میں ہے:

'‌فإذا ‌استعمل ‌الطيب ‌فإن ‌كان ‌كثيرا ‌فاحشا ‌ففيه ‌الدم، وإن كان قليلا ففيه الصدقة كذا في المحيط.واختلف المشايخ في الحد الفاصل بين القليل والكثير فبعض مشايخنا اعتبروا الكثرة بالعضو الكبير نحو الفخذ والساق وبعضهم اعتبروا الكثرة بربع العضو الكبير والشيخ الإمام أبو جعفر اعتبر القلة والكثرة في نفس،الطيب إن كان الطيب في نفسه بحيث يستكثره الناس ككفين من ماء الورد وكف من الغالية والمسك بقدر ما استكثره الناس فهو كثير وما لا فلا والصحيح أن يوفق ويقال إن كان الطيب قليلا فالعبرة للعضو لا للطيب حتى لو طيب به عضوا كاملا يكون كثيرا يلزمه دم وفيما دونه صدقة، وإن كان الطيب كثيرا فالعبرة للطيب لا للعضو حتى لو طيب به ربع عضو يلزمه دم هكذا في محيط السرخسي والتبيين هذا في البدن وأما الثوب والفراش إذا التزق به طيب اعتبرت فيه القلة والكثرة على كل حال وكان الفارق هو العرف، وإلا فما يقع عند المبتلى كذا في النهر الفائق.'

(كتاب المناسك،الباب الثامن في الجنايات،الفصل الأول فيما يجب بالتطيب والتدهن،ج:1،ص:240،241،ط:دار الفكر بيروت)

 المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے:

' ‌وقال ‌في ‌المحرم: ‌إذا ‌مس ‌الطيب ‌أو ‌استلم ‌الحجر ‌فأصاب ‌يده ‌خلوق، ‌إن ‌كان ‌ما ‌أصابه ‌كثير ‌فعليه ‌الدم، فبعض مشايخنا اعتبروا الكثرة بالعضو الكبير نحو الفخذ والساق، فقالوا: إذا طيب الساق أو الفخذ بكماله يلزمه الدم، وبعضهم اعتبروا الكثرة بربع العضو الكثير فقالوا: إذا طيب رب الساق، والفخذ يلزمه الدم، وإن كان أقل من ذلك يلزمه الصدقة.والفقيه أبو جعفر رحمه الله اعتبر القلة والكثرة في نفس الطيب، فقال: إن كان الطيب في نفسه بحيث يستكثره بكفيه الناس، لكفين من ماء الورد، والكف من المسك أو الغالية، فهو كثير وما لا فلا، قال الشيخ الإمام شيخ الإسلام المعروف بخواهر زاده رحمه الله: إن كان الطيب في نفسه قليلاً، إلا أنه طيب عضواً كاملاً، فإنه يكون كثيراً، أو تكون العبرة في هذه الحالة للعضو، وإن كان الطيب في نفسه كثيراً لا يعتبر العضو مكانه سلك فيه طريق الاحتياط، وإن مس طيباً إن لم يلزق بيده شيء منه، فلا شيء عليه، وإن لزق بيده منه إن كان كثيراً يلزمه الدم، وإن كان قليلاً لا يلزمه الدم، ويكفيه الصدقة.'

(‌‌‌‌كتاب المناسك،الفصل الخامس: فيما يحرم على المحرم بسبب إحرامه وما لا يحرم،ج:2،ص:453،ط:دار الكتب العلمية، بيروت)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100099

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں