بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1445ھ 15 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

احرام کے حالت میں الائچی والی چائے پی لی / احرام کی حالت میں صابن استعمال کرلیا


سوال

1۔  احرام کی حالت میں اگر دو کپ چائے میں تین الائچی کے دانے ڈالے ہوں اور محرم نے وہ چائے پی لی تو اب کیا حکم ہے؟

2۔الائچی والی چائے محرم پی لے لیکن پیتے ہوئے اس میں الائچی کی خوشبو محسوس نہ ہو تو کیا حکم ہے؟

3۔ محرم اگر استنجاء کے بعد خوشبو والا صابن استعمال کرلے تو کیا دم واجب ہوگا ؟

جواب

 واضح رہے کہ  کھانے کی وہ   چیزیں جن  میں زعفران ، الائچی،دار چینی یا   کوئی اور خوشبودار چیز ڈال کر پکایا گیا ہو،   احرام کی حالت میں ایسی پکی ہوئی چیز یں کھانا،  جائز ہوتا ہے، چاہے جتنی مقدار میں خوشبو دار چیز ڈالی گئی ہو، اس کے کھانے سے کچھ واجب نہیں ہوتا، البتہ ایسے مشروبات بوتل ، شربت اور پھلوں کا رس جن میں خوشبو ڈالی گئی ہو، خواہ  اسے پکایا  گیا ہو، یا نہ پکایا گیا ہو، بہر صورت  ایسے مشروبات  احرام کی حالت میں  پینے سے اجتناب کرنا چاہیئے، کیوں کہ ایسا مشروب  اگر احرام کی حالت میں تھوڑی مقدار میں ایک مرتبہ  پی  لیا  جائے، یا مشروب  میں خوشبو مغلوب ہو  تو محرم پر  پونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت صدقہ کرنا لازم ہوتا ہے، اور اگر زیادہ مقدار میں پی لیا ، یا تھوڑا تھوڑا دو تین بار پیا  گیا ہو، یا مشروب میں خوشبو غالب ہو   تو  اس صورت میں  محرم پر  دم واجب ہوتا ہے۔

معلم الحجاج میں ہے:

" مسئلہ ٢٤: پینے کی چیز میں مثلاً چائے، قہوہ وغیرہ میں خوشبو ملائی ، تو اگر خوشبو غالب ہے تو دم ہے اور اگر مغلوب ہے تو صدقہ ہے، لیکن اگر کئی مرتبہ پیا تو دم واجب ہوگا اور پینے کی چیز میں خوشبو ملا کر پکانے کی وجہ سے کچھ فرق نہیں آتا، پینے کی چیز میں خوشبو ڈال کر خواہ پکایا جائے یا نہ پکایا جائے ، بہر صورت جزا ہے۔"

( جنایات یعنی ممنوعات احرام و حرم اور ان کی جزا، ص ٢١٢، ط: گابا سنز)

1۔ 2۔ الائچی في ذاتہ چونکہ خوشبو  کے طور پر استعمال نہیں ہوتی،البتہ اس میں فرحت بخش بو ہوتی ہے، لہذا  احرام کی حالت میں الائچی کسی چیز میں ڈال کر کھانا یا پینا مکروہ ہے، تاہم الائچی کھانے، یا الائچی والی  چائے پینے سے کچھ لازم نہ ہوگا، لہذا صورت مسئولہ میں حاجی پر کچھ لازم نہ ہوگا۔

معلم الحجاج میں ہے:

" مسئلہ ۲۸: پان میں لونگ ، الائچی کھانا مکروہ ہے، کھانے سے کوئی جزا واجب نہ ہوگی۔"

( جنایات یعنی ممنوعات احرام و حرم اور ان کی جزا، ص ٢١٣، ط: گابا سنز)

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

"ولو جعله في طعام قد طبخ فلا شيء فيه وإن لم يطبخ وكان مغلوبا كره أكله كشم طيب وتفاح

(قوله ولو جعله) أي الطيب في طعام إلخ.

اعلم أن خلط الطيب بغيره على وجوه لأنه إما أن يخلط بطعام مطبوخ أو لا ففي الأول لا حكم للطيب سواء كان غالبا أم مغلوبا، وفي الثاني الحكم للغلبة إن غلب الطيب وجب الدم، وإن لم تظهر رائحته كما في الفتح، وإلا فلا شيء عليه غير أنه إذا وجدت معه الرائحة كره، وإن خلط بمشروب فالحكم فيه للطيب سواء غلب غيره أم لا غير أنه في غلبة الطيب يجب الدم، وفي غلبة الغير تجب الصدقة إلا أن يشرب مرارا فيجب الدم. وبحث في البحر أنه ينبغي التسوية بين المأكول والمشروب المخلوط كل منهما بطيب مغلوب. إما بعدم وجوب شيء أصلا أو بوجوب الصدقة فيهما، وتمامه فيه. [تنبيه]

قال ابن أمير حاج الحلبي: لم أرهم تعرضوا بماذا تعتبر الغلبة، ولم يفصلوا بين القليل والكثير كما في أكل الطيب وحده. والظاهر أنه إن وجد من المخالط رائحة الطيب كما قبل الخلط فهو غالب وإلا فمغلوب، وإذا كان غالبا فإن أكل منه أو شرب شيئا كثيرا وجب عليه دم، والكثير ما يعده العارف العدل كثيرا والقليل ما عداه، فإن أكل ما يتخذ من الحلوى المبخرة بالعود ونحوه فلا شيء عليه، غير أنه إن وجدت الرائحة منه كره بخلاف الحلوى المضاف إلى أجزائها الماورد والمسك، فإن في أكل الكثير دما والقليل صدقة. اهـ. نهر.

قلت: لكن قول الفتح المار في غير المطبوخ وإن لم تظهر رائحته يفيد اعتبار الغلبة بالأجزاء لا بالرائحة، وقد صرح به في شرح اللباب. ثم الظاهر أنه أراد الحلوى الغير المطبوخة وإلا فالمطبوخ لا تفصيل فيه كما علمت تأمل، هذا حكم المأكول والمشروب، وأما إذا خلط بما يستعمل في البدن كأشنان ونحوه، ففي شرح اللباب عن المنتقى: إن كان إذا نظر إليه قالوا هذا أشنان فعليه صدقة، وإن قالوا هذا طيب عليه دم."

( كتاب الحج، باب الجنايات في الحج، ٢ / ٥٤٦ - ٥٤٧، ط: دار الفكر )

3۔صابن کے ذریعے ہاتھوں کی صفائی مقصود ہوتی ہے، خوشبو لگانا اگرچہ مقصود نہیں ہوتا، تاہم اگر صابن میں خوشبو کی خاص  مقدار  ہو، اور  ایک ہی مجلس میں بار بار  اس سے ہاتھ، سر، چہرہ وغیرہ دھویا جائے تو  اس صورت میں دم واجب ہوگا، البتہ اگر  اس میں خوشبو کے اجزاء کم اور صفائی کے اجزاء زیادہ ہوں، یا خوشبو کے اجزاء اگرچہ زیادہ ہوں، لیکن صرف ایک ہی مرتبہ ایسے صابن سے ہاتھ دھویا جائے، تو  اس  صورت  میں دم واجب نہیں ہوگا ، البتہ  صدقہ دینا لازم ہوگا، صدقہ تقریبا دو کلو گندم یا آٹا یا اس کی قیمت ہے، اور یہ حدود حرم کے اندر اور باہر کہیں بھی ادا کر سکتا ہے۔

معلم الحجاج میں ہے:

" مسئلہ ٢٦: اشنان ( ایک گھاس ہے) میں اگر اتنی خوشبوملی ہو کہ دیکھنے والا اس کو اشنان یا صابون سمجھتا ہے اور کہتا ہے تو صدقہ ہے لیکن اگر کئی مرتبہ اس کو استعمال کیا یا د یکھنے والا اس کو خوشبو کہتا سے تو دم ہے اور خالص صابون سے دھونے میں کوئی چیز واجب نہیں لیکن محرم کو میل دور کرنا مکروہ ہے۔"

( جنایات یعنی ممنوعات احرام و حرم اور ان کی جزا، ص ٢١٢، ط: گابا سنز)

حج کے مسائل کے انسائیکلوپیڈیا میں ہے:

"احرام کی حالت میں چاہے احرام کھولنے سے پہلے ہی کیوں نہ ہو ، خوشبو والے صابن یا شیمپو استعمال کرنے سے احتراز کرنا ضروری ہے، تا ہم ان چیزوں کے استعمال کرنے کی صورت میں تفصیل یہ ہے کہ:

 ا۔ ایسا خوشبو دار صابن یا شیمپو جس کی خوشبو زیادہ ہے تو اس سے سر، چہرہ اور ہاتھ وغیرہ دھونے سے دم واجب ہوگا۔

 ۲۔ اور اگر ان چیزوں میں خوشبو ہلکی ہے اور بار بار نہیں دھو یا تو صدقہ کرناواجب ہوگا۔

۳۔ اور اگر ان چیزوں میں خوشبو بالکل نہ ہوتو استعمال سے کچھ واجب نہ ہوگا لیکن احرام والوں کے لئے جسم کامیل دور کرنا مکروہ ہے، اس لئے احرام کے دوران ایساصابن اور شیمپواستعمال کرنے سے بھی پر ہیز کرنا چاہئے ۔"

( بعنوان: شیمپو، ٣ / ٣٦،ط: بيت العمار )

غنية الناسك فى بغية المناسك میں ہے:

" وغسل الرأس واللحية والجسد بالسدر ونحوه ... بخلاف غسله بصابون او دلوک او اشنان فإنه لا يكره الا أن يزيل الوسخ ."

(باب الإحرام، فصل فى مكروهات الإحرام و محظوراته التي لا جزاء فيها سوي الكراهة ، ص: ٩٠، ط: ادارة القرآن )

غنية الناسك في بغية المناسك میں ہے:

" قال اصحابنا رحمهم الله تعالى: ان ما يستعمل في البدن ثلاثة أنواع : طيب محض معد للتطيب به کالمسك والزعفران والغالية والعنبر والكافور ونحوها تجب به الكفارة على أي وجه استعمل حتى لو داواى عينيه أو شقوق رجليه تجب به الكفارة ، ونوع ليس بطيب بنفسه ولا فيه معنى الطيب كالالية والشحم فسواء أكله أو ادهن به أو جعله في شقوق رجليه فلاشي عليه . و نوع ليس بطيب بنفسه ولكنه اصل للطيب، يستعمل علي وجه التطيب، و يستعمل علي وجه الدواء والإدام، كالزيت و الشيرج، فإن استعمل علي وجه الإدهان في الرأس و البدن، يعطي له حكم الطيب، و إن أكل أو استعمل في شقوق الرجلين أو داوي به الجرح أو ادهن ساقيه لا يعطي حكم الطيب كالشحم، كذا في الهندية و حاشية الشلبي."

( باب الإحرام ، فصل في محرمات الإحرام و محظوراته التي في غالبا الجزاء، ص: ٨٩، ط: ادارة القرآن )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"فإذا استعمل الطيب فإن كان كثيراً فاحشاً ففيه الدم، وإن كان قليلاً ففيه الصدقة ، كذا في المحيط. واختلف المشايخ في الحد الفاصل بين القليل والكثير، فبعض مشايخنا اعتبروا الكثرة بالعضو الكبير نحو الفخذ والساق، وبعضهم اعتبروا الكثرة بربع العضو الكبير، والشيخ الإمام أبو جعفر اعتبر القلة والكثرة في نفس الطيب إن كان الطيب في نفسه بحيث يستكثره الناس ككفين من ماء الورد، وكف من الغالية والمسك، بقدر ما استكثره الناس فهو كثير، وما لا فلا، والصحيح أن يوفق ويقال: إن كان الطيب قليلاً فالعبرة للعضو لا للطيب، حتى لو طيب به عضواً كاملاً يكون كثيراً يلزمه دم، وفيما دونه صدقة، وإن كان الطيب كثيراً فالعبرة للطيب لا للعضو حتى لو طيب به ربع عضو يلزمه دم، هكذا في محيط السرخسي والتبيين. هذا في البدن وأما الثوب والفراش إذا التزق به طيب اعتبرت فيه القلة والكثرة على كل حال، وكان الفارق هو العرف، وإلا فما يقع عند المبتلى، كذا في النهر الفائق".

(کتاب المناسك، الفصل الأول فيما يجب بالتطيب والتدهن، ١ / ٢٤٠، ط:دارالفکر)

غنية الناسك في بغية المناسكمیں ہے:

" ولو غسل رأسه أو يده بأشنان فيه الطيب فإن كان من رآه سماه أشنانا فعليه صدقة إلا أن يغسل مرارا فدم وإن سماه طيبا قدم، ولو غسل رأسه بالخطمي فعليه دم عند "أبي حنيفة"، وقالا: صدقة .

قيل: «جواب "أبي حنيفة" في خطمي العراقي وله رائحة طيبة وإن لم تكن زكية، وموجبة دم، وجوابهما في خطمي الشامي ولا رائحة له فلا خلاف في خطمي العراقي، ويجب الدم فيه بالاتفاق».

وقيل: «بل الخلاف في العراقي فقط، ولا شيء في استعمال غيره اتفاقا» (فتح) وغيره، ولو غسل رأسه بالحرض والصابون لا رواية فيه، وقالوا: ولا شيء فيه؛ لأنه ليس بطيب، ولا يقتله (فتح)، وكذا لو غسل رأسه بالسدر لا شيء عليه كما في اللباب، لكنه كالخطمي يقتل الهوام ويلين الشَّعرَ فكان ينبغي وجوب الصدقة عندهما كما في «المنح»."

( باب الجنايات، مطلب: في غسل يده أو رأسه بالطيب، ص: ٣٨٩ - ٣٩٠، ط: دار الكتب العلمية بيروت )

المحيط البرهاني في الفقه النعمانيمیں ہے:

"وفي «المنتقى» هشام عن محمد رحمه الله: إذا غسل المحرم يده بأشنان فيه طيب، فإن كان إذا نظروا إليه قالوا: هذا أشنان ففيه الصدقة، وإن قالوا: هو طيب فعليه الدم."

( كتاب المناسك، الفصل الخامس: فيما يحرم على المحرم بسبب إحرامه وما لا يحرم، ٢ / ٤٥٤، ط: دار الكتب العلمية بيروت )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144406101112

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں